سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے اور انہیں فوج نے تحویل میں لے لیا ہے۔
اس حوالے سے آج نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سینئیر صھافی شوکت پراچہ نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے یہ بہت ہی سنجیدہ پیشرفت ہے، ملک میں اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے یہ اسی کے تناظر میں ہے۔
شوکت پراچہ نے کہا کہ ٹاپ سٹی انکوائری ایک اور معاملہ ہے، لیکن آئی ایس پی آر کی جو پریس اسٹیٹمنٹ کو جو دوسرا حصہ ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد متعدد ملٹری ایکٹس کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، وہ زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملٹری ایکٹ 1952 کی جو خلاف ورزی ہے اس میں بہت کچھ آسکتا ہے، آئی ایس پی آر کی اسٹیٹمنٹ میں سب کچھ بیان نہیں کیا گیا۔
شوکت پراچہ کے مطابق ٹاپ سٹی کیس ان کی سروس کے دوران ہوا معاملہ تھا لیکن پوسٹ ریٹائرمنٹ ایکٹس کی خلاف ورزی کا ذکر ہے۔
آج نیوز اسلام آباد کے بیورو چیف اور سینئیر صحافی طارق چوہدری نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کے سربراہان پر پہلے بھی بڑے الزمات لگتے رہے ہیں، لیکن کبھی نوبت اس حد تک نہیں گئی کہ اعلان کیا جائے کہ فلاں افسر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
سینئیر صحافی اور ”پروگرام“ اسپاٹ لائٹ کی میزبان منیزے جہانگیر نے کہا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ اتنے ہائی پروفائل جنرل کو اس طرح گرفتار کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بار بار یہ بات کی جاتی تھی فیض حمید پی ٹی آئی کی سرپرستی کرتے تھے اور کر رہے ہیں۔