رانی پور میں 10 روز قبل با اثر پیر کے گھر جنسی زیادتی اور تشدد سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ کمسن گھریلو ملازمہ فاطمہ فرڑو کے قتل کیس میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کردیں۔
خیرپورکی انسداد دہشتگردی عدالت میں فاطمہ کے قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت میں مدعی مقتولہ بچی کی والدہ سمیت 4گواہان عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران مقدمے میں نامزد اسد شاہ، حنا شاہ، فیاض شاہ اورامتیاز میراثی ویڈیولنک پر عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت مقتولہ کے رشتے دارچاروں گواہان اپنے بیانات سے مکرگئے۔
بعدازاں عدالت نے کیس سے دہشتگردی کی دفعات ختم کردیں اور کیس سیشن کورٹ خیرپور منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
بچی سے زیادتی کا انکشاف
متوفی 10 سالہ فاطمہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لاش کے ڈی کمپوزیشن کا عمل ابتدائی مراحل میں تھا، چہرے کے دائیں جانب کے حصے پر نیل کے نشانات تھے، جب کہ ناک اور کانوں سے خون ٹپک رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، بچی کی زبان اس کے دانتوں میں دبی ہوئی تھی، اس کی پیشانی کی دائیں جانب چوٹ کے نشانات تھے، سینے کے دائیں جانب اوپر کی طرف بھی زخموں کے نشان تھے، اور ٹیشوز کے نیچے خون بھی جمع تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا بچی کمر کے درمیان 5 سے 2 سینٹی میٹر زخم کے نشان تھے، کمر کے نچلی جانب بھی 6 سینٹی میٹر زخم کا نشان تھا، کمر کے بائیں جانب 2 سینٹی میٹر، ہاتھ سے لیکر بازو تک 10سینٹی میٹر اور دائیں ہاتھ پر بھی 6 سینٹی میٹر کے زخم کا نشان تھا۔
رپورٹ کے مطابق فاطمہ کے بائیں ہاتھ میں سوراخ کرنے کے نشان بھی تھے، اور تمام زخم موت سے پہلے کے ہیں، بچی کے سر پر بھی چوٹیں ہیں، جب کہ رپورٹ کے مطابق بچی سے زیادتی کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ 16 اگست کو خیرپور میں واقعہ پیش آیا، جہاں بااثر پیر کی حویلی میں 10 سالہ بچی فاطمہ پراسرار طور پر جاں بحق ہوگئی، بچی کی لاش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی میں بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات واضح تھے۔
مزید پڑھیں: فاطمہ کو ہمارے سامنے تشدد کر کے مارا گیا، ایک اور ملازمہ کا بیان سامنے آگیا
بچی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر ہی دفن کردیا گیا، اور پولیس نے جاں بحق بچی کا میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کروائے بغیر ہی کیس داخل دفتر کردیا۔
ابتدا میں بچی کے والدین نے بیان دیا کہ ان کی بیٹی مرشد کے گھر میں کام کرتی تھی، اور غربت کی وجہ سے وہ خود اپنی بچی کو وہاں چھوڑ کر آئے تھے۔
متوفی فاطمہ کے والدین نے کہا کہ ہماری بچی 3 روز سے بیمار تھی اور بیماری کے باعث وہ فوت ہوگئی ہے۔
تاہم پولیس کی کارروائی کے بعد بچی کے والدین کا کہنا تھا کہ بچی تشدد سے جاں بحق ہوئی ہے، بچی کے ورثاء نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتجاج بھی کیا۔
انکشاف ہوا ہے کہ فاطمہ کے والدین کو ملزمہ حنا شاہ کی چچی دھمکیاں دینے لگی ہے۔
فاطمہ کی ماں اور کیس کی مدعی شبنم نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ اسے کہا گیا کہ ”حنا شاہ پر ہاتھ ہلکا رکھو ورنہ تمہاری خیر نہیں“۔
مدعی کو دھمکی دیتے ہوئے مزید کہا گیا کہ ”اسد شاہ تک رہو حنا شاہ پر کوئی بات نہ کرو“۔
فاطمہ کی والدہ بھی انصاف کے حصول کیلئے ڈٹ گئی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ میں حنا شاہ کو کوئی رعایت نہیں دینے والی، اسد شاہ اور حنا شاہ کو سزا دلوا کر ہی دم لوں گی۔
پولیس نے 19 اگست کو ملزم اسد شاہ سے تفتیش کے بعد رانی پور اسپتال کا ڈسپنسر امتیاز کو گرفتار کیا تھا، اور پولیس ذرائع نے بتایا تھا کہ ڈسپنسر امتیاز میراسی فاطمہ کا گھر پرعلاج کرتا تھا۔
![نائب قاصد امتیاز میراسی][1]
ایف آئی آر میں نامزد ملزم اسد شاہ نے پولیس کو بتایا کہ رانی پور سرکاری اسپتال کا ڈسپنسر علاج کیلئے آتا رہا تھا۔
مزید پڑھیں: رانی پور: بچی سے زیادتی کی تصدیق، انفارميشن لیک ہونے پر حویلی کے مکین فرار
دوسری جانب محکمہ صحت سندھ نے انکشاف کیا کہ امتیاز میراسی محکمہ ہیلتھ میں ڈسپنسر نہیں بلکہ نائب قاصد ہے۔