بنگلا دیش میں عوامی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کا واقعہ ایک مثال بنتا جارہا ہے۔ خطے کے متعدد ممالک میں سیاست دان حکومتوں کو بنگلا دیش کی مثال دے کر ڈرانے لگے ہیں۔
بھارت میں سابق حکمراں جماعت کے رہنما بھی بنگلا دیش کی مثال دے رہے ہیں۔ سابق وزیر سلمان خورشید کے اس بیان نے کھلبلی مچادی ہے کہ جو کچھ بنگلا دیش میں ہوا وہ خطے میں کہیں بھی اور بھارت میں بھی ہوسکتا ہے۔ اُن کا اشارا مودی سرکار کی من مانیوں کی طرف تھا۔
بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکر نے جے پور میں راجستھان ہائی کورٹ کی پلاٹینم جوبلی کے حوالے سے جودھپور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ بنگلا دیش کی بات کر رہے ہیں جس کا بظاہر کوئی جواز نہیں۔ بھارت اور بنگلا دیش کے حالات میں بہت فرق ہے اور وہاں جو کچھ ہو رہا تھا وہ یہاں نہیں ہو رہا۔
سلمان خورشید یا منی شنکر ایر کا نام لیے بغیر جگدیپ دھنکر نے کہا کہ بھارت میں نظام مضبوط ہے، جمہوری اقدار کی پاس داری کی جارہی ہے اور عام آدمی کے ریلیف کے لیے ایسا بہت کچھ کیا جارہا ہے جو پورے خطے میں کہیں اور نہیں کیا جارہا۔
کانگریس کے لیڈر، کریئر ڈپلومیٹ اور سابق مرکزی وزیر منی شنکر ایر نے بھی مودی سرکار کو خبردار کیا ہے جو کچھ بھی بنگلا دیش میں ہوا ہے وہ بھارت میں بھی ہوسکتا ہے اس لیے من مانی ختم کی جائے، اصولوں کے مطابق حکمرانی کی جائے، کرپشن پر قابو پایا جائے اور عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ریلیف کا اہتمام کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش میں اقلیتوں کے خلاف اشتعال بھارت کے حالات کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔