ہندوستان میں مقیم بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ انہیں اقتدار سے ہٹانے میں کردار ادا کر رہا ہے۔
بھارتی اخبار ”اکنامک ٹائمز“ کے مطابق حسینہ واجد نے دعویٰ کیا کہ اگر وہ بنگلہ دیش کی خودمختاری سے سمجھوتہ کرنے پر راضی ہوتیں، خاص طور پر سینٹ مارٹن جزیرے کو امریکا کے حوالے کرنے اور خلیج بنگال پر امریکی اثر و رسوخ کی اجازت دیتیں تو وہ اس عہدے پر قائم رہ سکتی تھیں۔
اقلیتوں پر مظالم، امریکا سے بھارت کو ’خاص تشویش کا ملک‘ قرار دینے کا مطالبہ
معزول بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے کہا، ’میں نے استعفا دیا تاکہ مجھے لاشوں کا جلوس نہ دیکھنا پڑے۔ وہ طلبا کی لاشوں پر اقتدار میں آنا چاہتے تھے، لیکن میں نے اس کی اجازت نہیں دی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اقتدار میں رہ سکتی تھی اگر میں سینٹ مارٹن جزیرے کی خودمختاری کو تسلیم کر لیتی اور امریکہ کو خلیج بنگال پر اپنا تسلط جمانے کی اجازت دیتی‘۔
حسینہ نےاپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ بنیاد پرست عناصر سے جوڑ توڑ نہ کریں۔
سینٹ مارٹن جزیرہ، خلیج بنگال میں تین مربع کلومیٹر کا ایک چھوٹا جزیرہ ہے، جو بنگلہ دیش کے جنوبی سرے کے قریب واقع ہے۔
حسینہ نے پانچ اگست کو اپنے استعفے کے بعد ہونے والے تشدد اور بدامنی پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
مالدیپ کے صدر کا یو ٹرن، بھارت کی طرف جھک گئے
انہوں نے کہا کہ ’میرا دل یہ خبر پا کر روتا ہے کہ بہت سے لیڈر مارے جا چکے ہیں، کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، اور ان کے گھروں کو توڑ پھوڑ اور آگ لگائی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں جلد واپس آؤں گی‘۔
انہوں نے کہا، ’عوامی لیگ بار بار اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ میں ہمیشہ بنگلہ دیش کے مستقبل کے لیے دعا کرتی رہوں گی، اس قوم کے لیے جس کے لیے میرے عظیم والد نے جدوجہد کی۔‘
حسینہ نے طلبا کے جاری مظاہروں سے بھی خطاب کیا اور واضح کیا کہ ان کے سابقہ تبصروں کو بدامنی بھڑکانے کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے آپ کو کبھی بھی رضاکار نہیں کہا۔ آپ کو اکسانے کے لیے میرے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ سازش کاروں نے آپ کی بے گناہی کا فائدہ اٹھایا اور آپ کو قوم کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا‘۔
اس سے پہلے، ایک پارلیمانی اجلاس کے دوران، حسینہ نے امریکا پر بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا۔
ان کے بیٹے، صجیب واجد جوئے نے ان خدشات کو دہراتے ہوئے تجویز کیا کہ حالیہ مظاہروں کو ممکنہ طور پر کسی غیر ملکی خفیہ ایجنسی نے بھڑکایا، حالانکہ انہوں نے واضح طور پر امریکہ کا نام لینے سے گریز کیا۔
خیال رہے کہ امریکا بنگلہ دیش کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور انتخابی عمل پر مسلسل تنقید کرتا رہا ہے۔