جان بچانے کی کوشش میں میانمار سے بھاگ کر بنگلا دیش میں پناہ لینے کوشش کرنے والے درجنوں روہنگیائی مسلمان ڈرون حملے میں جاں بحق ہوگئے۔ عینی شاہدین نے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 200 بتائی ہے۔
میانمار کی فوج نہتے روہنگیائی مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے۔ شہید ہونے والوں میں ایک حاملہ خاتون اور اس کی دو سالہ بچی بھی شامل تھی۔
روہنگیائی مسلمانوں کا ایک جتھہ بنگلا دیش کی حدود میں داخل ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ اُس پر میانمار کی فوج نے ڈرون حملہ کردیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج نے نہتے اور بے سر و سامانی کی حالت میں بنگلا دیش کی طرف بھاگنے والے روہنگیائی مسلمانوں اور ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنایا۔
چار عینی شاہدین کے علاوہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور سفارت کاروں نے بھی حملے کی تصدیق اور مذمت کی ہے۔ 2017 سے اب تک کم و بیش 7 لاکھ 30 ہزار روہنگیائی مسلمان اپنے علاقوں سے نکل چکے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو عینی شاہدین نے بتایا کہ بے سہارا اور بے گھر روہنگیائی مسلمانوں پر حملے اراکان آرمی نے کیے۔ اراکان آرمی ملیشیا اور میانمار کی فوج نے ان حملوں کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔
ایک وڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کیچڑ والے میدان میں ہر طرف لاشیں پڑی ہیں اور ان کا سامان بکھرا ہوا ہے۔ کسی طور زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ 200 افراد مارے گئے۔ رائٹرز کے مطابق یہ قتلِ عام ساحلی شہر مونگڈو کے نواح میں کیا گیا۔
بنگلا دیش میں ایک پناہ گزین کیمپ میں 35 سالہ محمد الیاس نے بتایا کہ وہ اپنی حاملہ بیوی اور دو سالہ بچی کے ساتھ ساحل پر کشتی کا انتظار کر رہا تھا کہ فوج نے ڈرونز کے ذریعے حملے شروع کردیے۔ بیوی اور بیٹی شدید زخمی ہوئیں اور بعد میں انتقال کرگئیں۔ محمد الیاس کے کئی رشتہ دار جاں بحق ہوئے۔
28 سالہ شمس الدین نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی اور نوزائیدہ بچے کے ساتھ کسی طور بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ اس نے بتایا کہ کئی زخمی بہت دیر تک تڑپتے رہنے کے بعد دم توڑ گئے۔
روہنگیائی مسلمانوں کو بنگلا دیش لے جانے والی ایک کشتی بھی پیر کو دریائے ناف میں ڈوب گئی۔ یہ دریا بنگلا دیش اور میانمار کو الگ کرتا ہے۔ اس کشتی کے ڈوبنے بھی درجنوں روہنگیائی مسلمان جاں بحق ہوئے۔