Aaj Logo

شائع 09 اگست 2024 05:58pm

جنوبی ایشیا و افریقا کے 2 ارب افراد خوراک کی شدید قلت سے دوچار

دنیا بھر میں خوراک کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ متعدد خطے خوراک کی شدید قلت کے باعث صحتِ عامہ سے متعلق مسائل سے بھی دوچار ہیں۔

گلوبل فوڈ پالیسی رپورٹ برائے 2024 میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا اور افریقا میں کم و بیش 2 ارب افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ویسے تو خوراک کی قلت کئی خطوں میں ہے تاہم جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، افریقا میں اِن خطوں سے جُڑے ہوئے چند علاقوں میں معاملات زیادہ سنگین ہیں۔

پاکستان، بھارت، بنگلا دیش، افغانستان، سری لنکا، شمالی افریقا کے بیشتر ممالک، میانمار، فلپائن اور دیگر ممالک میں عام آدمی غذا اور غذائیت دونوں کی قلت کا شکار ہے۔

15 کروڑ سے زائد بچے خوراک کی قلت کے باعث صحت کی خرابی کا بھی شکار ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی مشکلات زیادہ ہیں کیونکہ اِن کی مائیں بھی خوراک کی قلت کا سامنا کر رہی ہیں۔

گلوبل فوڈ پالیسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خوراک کی قلت سے دوچار خطوں کے ممالک میں لوگ صحت کی خرابیوں سے بھی دوچار ہیں کیونکہ پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کھانے سے معاملات بگڑتے ہیں، بیشتر کیسز میں موٹاپے کو راہ ملتی ہے اور یوں غذا اور غذائیت کی کمی اضافی مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جن دو ارب افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے اُن کی مشکلات دور کرنے کے لیے کم از کم 1300 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے عالمی اداروں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔

جامع منصوبہ سازی کے ذریعے اِن دو ارب افراد کو خوراک کے معاملے میں معیارات کے مطابق جینے کے قابل بنانے کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔

گلوبل فوڈ پالیسی رپورٹ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ (آئی ایف پی آر آئی) نے جاری کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ناقص خوراک کے باعث دنیا بھر میں 2 ارب 20 کروڑ افراد زائد وزن یا موٹاپے کا شکار ہیں۔

ایک ارب 20 کروڑ افراد کو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے جبکہ پختہ عمر کے 40 فیصد افراد موٹاپے کی زد میں ہیں۔ یہ بات نیپال کے دارالحکومت کاٹھمنڈو میں ایک تقریب کے دوران آئی ایف پی آر آئی کی سینیر ڈائریکٹر فار فوڈ اینڈ نیوٹریشن ڈاکٹر پوریما مینن نے بتائی۔

خوراک کی قلت سے دوچار خطوں کے لوگ صحت کی خرابی کے باعث زیادہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ موٹاپے اور دیگر پیچیدگیوں کے باعث یہ لوگ دل جمعی سے کام نہیں کر پاتے اور کام سیکھنے کے عمل میں بھی یہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔

Read Comments