بنگلا دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بظاہر سُکون ہے تاہم ذہنوں میں کئی سوال کُلبلا رہے ہیں۔ کیا بنگلا دیش کی عبوری حکومت ملک میں بروقت عام انتخابات کرا پائے گی؟
کیا عوامی لیگ کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی؟ کیا عبوری حکومت بنگلہ دیش کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو درپیش روزگار کا مسئلہ حل کر پائے گی؟
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کو بہت سے چیلنج درپیش ہوں گے۔ طلبہ تحریک سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ کیا وہ تمام توقعات بارآور ثابت ہوسکیں گی؟
سب سے بڑا چیلنج ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا ہے۔ بنگلا دیشی آئین کے مطابق حکومت کی تحلیل کے بعد 90 دن میں عام انتخابات کا انعقاد لازم ہے۔ آرٹیکل 118 کے مطابق بنگلا دیش کا الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کا ذمہ دار ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کس حد تک منصفانہ ہوں گے؟ کیا عوامی لیگ انتخابی اکھاڑے میں اترنے کی اجازت دی جائے گی؟ یا اُسے الیکشن کمیشن یا کسی عدالتی حکم نامے کے تحت یا ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے دور رکھا جائے گا؟
عبوری حکومت کے لیے دوسرا بڑا چیلنج بے روزگاری کا گراف نیچے لانے کا ہے۔ بنگلا دیش میں اس وقت 5 فیصد سے زیادہ بے روزگاری ہے۔ بنگلا دیش انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اسٹڈیز کے ایک سروے مطابق بنگلا دیش میں 66 فیصد گریجویٹ بے روزگار ہیں۔
شیخ حسینہ کی حکومت ک دھڑن تختہ کرنے والی طلبہ تحریک کی پشت پر بے روزگاری ہی تو سب سے بڑا فیکٹر تھی۔ سرکاری ملازمتوں میں مجموعی طور پر 56 فیصد کوٹے کے خلاف ہی تو لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
شیخ حسینہ کے مستعفی اور فرار ہونے کے بعد چَین ہی چَین لکھنے والے راویوں کو سوچنا چاہیے کہ اب ملک کے نوجوانوں کے ہاتھ آئے گا کیا۔
نئی حکومت کو خارجہ محاذ پر بھی زیادہ اور ڈٹ کر کام کرنا ہوگا۔ حسینہ واجد حکومت کا دھڑن تختہ کیے جانے سے بھارت اور بنگلا دیش کے تعلقات میں کشیدگی در آئی ہے۔ بنگلا دیش میں بھارتی خفیہ ادارے ”را“ کے ایجنٹس کی گرفتار نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھادی ہے۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کو پاکستان اور چین کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک سے بھی تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے بہت کام کرنا پڑے گا۔