Aaj Logo

شائع 07 اگست 2024 06:27pm

سیاسی قیدیوں کیلئے جہنم، شیخ حسینہ کا پراسرار ’آئینہ گھر‘

بنگلہ دیش میں 21 اگست 2016 کو بیرسٹر احمد بن قاسم ارمان اپنا نارمل دن گزار رہے تھے کہ انہیں ڈھاکہ کے میرپور میں ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا۔ دو دن بعد، سابق بریگیڈیئر جنرل عبداللہ الامان اعظمی کو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے 1971 کی جنگ آزادی میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں اٹھا لیا۔ ان دونوں افراد کا مقام شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے تحت چلنے والی ایک خفیہ جیل ”آئینہ گھر“ بنی۔

آئینہ گھر دراصل خوف کا گڑھ ہے۔ وہاں حراست میں رکھے گئے اور رہا کیے جانے والے لوگ مشکل سے ہی اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ وہاں ان پر کیا گزری۔

”ڈیلی آبزرور بنگلہ دیش“ کی رپورٹ کے مطابق، ارمان اور اعظمی دونوں کو 8 سال تک بدترین حالات میں بغیر کسی مقدمے کے قید رکھا گیا، اور حسینہ واجد کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد 6 اگست 2024 کو انہیں رہا کیا گیا۔

پانچ اگست کو ملک سے فرار ہونے کے بعد حسینہ کی حکومت گرچکی ہے اور اب توجہ بنگلہ دیش میں اس پراسرار حراستی مرکز ”آئینہ گھر“ پر مرکوز ہے۔

حسینہ واجد کی حکومت لوگوں کو اچانک لاپتہ کرنے اور سیاسی مخالفین کے ساتھ سخت سلوک کے لیے مشہور تھی۔

اطلاعات کے مطابق، آئینہ گھر کے علاوہ 23 دیگر خفیہ حراستی مراکز ہیں، جن میں سے کچھ ڈھاکہ میں بھی ہیں۔ ان پراسرار جگہوں میں سے ایک ڈھاکہ چھاؤنی میں آئینہ گھر ہے۔

آئینہ گھر کو مبینہ طور پر بنگلہ دیش کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی ”ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فورسز انٹیلی جنس (DGFI)“ چلاتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں صرف سیاسی قیدی ہی موجود نہیں، بلکہ اس آئینہ گھر کا استعمال شدت پسندوں کو بھی حراست میں رکھنے کے لیے کیا جاتا تھا۔

2024 میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، بنگلہ دیشی فورسز نے 2009 سے لے کر اب تک 600 سے زائد لوگوں جبری طور پر لاپتہ کیا ہے، شیخ حسینہ اسی سال برسراقتدار آئی تھیں۔ حسینہ واجد کی حکومت نے جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی مدد لینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے الزامات کی تحقیقات شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔ جہاں 100 سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔

2022 میں، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما مرزا فخر الاسلام عالمگیر نے کہا کہ پارٹی کی قائم مقام چیئرمین اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمٰن بھی آئینہ گھر کا شکار ہوئے۔ طارق رحمٰن، جو بعد میں لندن منتقل ہو گئے تھے والدہ کی رہائی کے بعد بنگلہ دیش واپس جانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے اخبار ”پرتھم آلو“ نے ان کے حوالے سے کہا، ’جن لوگوں کو قتل کیا جانا ہوتا ہے، انہیں اس آئینہ گھر کے ٹارچر سیل میں لے جایا جاتا ہے، اور جن لوگوں کو زندہ رکھا جانا ہوتا اُنہیں یہاں برسوں تک تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور قید رکھا جاتا ہے‘۔

بنگلہ دیش میں لُوٹی ہوئی سرکاری چیزیں لوگوں نے واپس کردیں

بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر گیوین لیوس نے جب ڈی جی ایف آئی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور آئینہ گھر کے بارے میں سوال کیا تو دی بزنس اسٹینڈرڈ آف بنگلہ دیش کی رپورٹ کے مطابق، لیوس کو بتایا گیا کہ آئینہ گھر کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

شیخ محمد سلیم گاڑیوں کی مرمت کی دکان پر تھے جب انہیں ایک فون کال کے بعد اغوا کر لیا گیا۔ وہ بھی آئینہ گھر لے جائے گئے۔ حسین الرحمٰن ایک ایوارڈ یافتہ فوجی افسر تھے، جنہیں کئی سال خدمات انجام دینے کے بعد یہاں حراست میں رکھا گیا تھا۔

شیخ محمد سلیم اور حسین الرحمٰن دونوں نے نیٹرا نیوز کو انٹرویو دیا۔

شیخ سلیم نے کہا کہ ان کے سیلوں میں کھڑکیاں نہیں تھیں، ایک اونچی چھت تھی جس میں صرف ایک روشنی کی کرن آتی تھی، جبکہ بلند آواز اور بڑے ایگزاسٹ فین تھے۔ ان پنکھوں کی آوازوں نے کمرے کی ہر دوسری آواز کو غرق کر دیا تھا۔ وہ عمارت کے اندر تھرتھراہٹ محسوس کر سکتے تھے۔ اس کا مطلب قریب میں کوئی ائیرپورٹ یا ائیربیس تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے قیدیوں نے سیل کی دیواروں پر ڈی جی ایف آئی لکھا تھا۔

شیخ سلیم نے نیٹرا نیوز کو بتایا، ’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھ سے پہلے اس جیل میں کتنے لوگ بند تھے۔‘

لوگوں نے لکھا، ’ڈی جی ایف آئی مجھے یہاں لایا‘ یا ’ڈی جی ایف آئی نے انہیں ان کے گھر سے اٹھایا‘۔

ان کے مطابق کچھ نقش و نگار دوسروں کے مقابلے زیادہ جذباتی کرنے والے تھے۔

ایک قیدی نے لکھا تھا، “براہ کرم میرے گھر والوں سے کہیں کہ وہ مجھے تلاش کرنا بند نہ کریں اور انہیں بتائیں کہ حکومت مجھے یہاں لے کر آئی ہے۔’

شیخ سلیم کو وہ عزت نہیں دی گئی جو دوسرے معزز قیدیوں کو ملتی تھی۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مارا پیٹا گیا۔

غریب دوست ڈاکٹر یونس شیخ حسینہ کو کبھی ایک آنکھ نہیں بھائے

انہوں نے نیٹرا نیوز کو بتایا، ’ایک دن، انہوں نے مجھے بہت مارا پیٹا اور پھر مجھے ایک مختلف سیل میں لے گئے۔‘

دراصل سلیم وہ شخص نہیں تھا جسے وہ گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ سلیم غلط شناخت کا شکار ہوئے تھے اور انہیں جلد ہی رہا کر دیا گیا۔ جس کے بعد وہ ملائیشیا چلے گئے۔

پراسرار آئینہ گھر کہاں واقع ہے؟

اسی طرح حسین الرحمٰن بنگلہ دیشی فوج میں سابق لیفٹیننٹ کرنل تھے۔ وہ ’بیر پراتیک‘ نام کا ایک بڑا ملٹری بہادری ایوارڈ حاصل کرنے والی شخصیت تھے۔ وہ ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) کے کمانڈر تھے جو کہ ایک بدنام زمانہ نیم فوجی گروپ ہے، جس پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔

حسین الرحمٰن گروپ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیوں کا حصہ رہے تھے، 2012 میں انہیں عسکریت پسندوں کے ساتھ ملوث ہونے کے الزام میں برطرف کر دیا گیا تھا۔

تاہم، انہوں نے نیترا نیوز سے گفتگو میں ان الزامات کی تردید کی۔

انہیں سب سے پہلے 2011 میں اغوا کیا گیا تھا۔ پھر 2018 میں وہ آئینہ گھر پہنچائے گئے۔ جب انہوں نے بیت الخلا کے ایگزاسٹ فین سے جھانکا تو وہ آئینہ گھر کا مقام پہچاننے میں کامیاب رہے۔

ایک سابق فوجی افسر کی حیثیت سے وہ ڈھاکہ چھاؤنی کے علاقے کو تفصیل سے جانتے تھے۔

2018 میں انہیں میرپور ڈیفنس آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع ان کے گھر سے پکڑا گیا تھا اور آخر کار، انہیں فروری 2020 میں رہا کر دیا گیا۔

شروع میں، وہ کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔

حسین رحمٰن نے نیترا نیوز کو بتایا کہ ’لاپتہ کئے جانے کے اس مرکز کا نام آئینہ گھر ہے۔‘

انہوں نے نیترا نیوز کو یہ بھی بتایا کہ آئینہ گھر کے 30 سیل تھے۔ ساؤنڈ پروف تفتیشی سیل، جہاں قیدیوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔

آئینہ گھر کی حفاظت سویلینز اور فوج دونوں کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’جب میں وہاں اس جیل میں تھا، میں نے مختلف سیلوں میں بہت سے لوگوں کو روتے ہوئے سنا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے رہا کیا گیا، لیکن بہت سے بدقسمت لوگ اب بھی وہاں موجود ہیں‘۔

بنگلہ دیش سے فوج کی وردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے 30 اہلکار گرفتار

شیخ سلیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا، ’میں صرف ان کی خاطر یہ بڑا خطرہ مول لے رہا ہوں۔ میں حکومت پر زور دے رہا ہوں کہ وہ جبری گمشدگیوں کے اس گھناؤنے جرم کو روکے‘۔

نیترا نیوز کے ذوالقرنین سائر نے وی او اے کو بتایا کہ جب متاثرین کو رہا کیا جاتا ہے، تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچانے کے لیے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

الجزیرہ کی ایوارڈ یافتہ تحقیقاتی فلم ”آل دی پرائم منسٹرز مین“ کے خفیہ رپورٹر نے اس حوالے سے کہا کہ، ’بس ایک غلطی اور وہ اغوا ہو کر دوبارہ غائب ہو سکتے ہیں، اس لیے یہ بہت اہم ہے کہ ان آوازوں کو سنا اور رپورٹ کیا جائے۔‘

اب ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق، بدھ (7 اگست) کو، ڈی جی ایف آئی نے کہا کہ آئینہ گھر میں کوئی زیر حراست نہیں ہے۔

ڈی جی ایف آئی نے یہ بات مظاہرین کے ایک گروپ سے کہی اور ان سے کہا کہ وہ اس سہولت کا معائنہ کریں۔

ڈی جی ایف آئی نے گروپ کو بتایا کہ وہ بنگلہ دیش بھر میں 23 دیگر حراستی مراکز کا معائنہ کرنے کے لیے ایک مشترکہ کمیشن بنائے گا۔

حسینہ کے حکومت جانے کے بعد کئی لوگ ڈی جی ایف آئی کے سامنے اس امید میں جمع ہیں کہ ان کے پیاروں کو رہا کیا جائے گا، ان میں درجنوں خواتین ایسی ہیں جو بدنام زمانہ آئینہ گھر میں برسوں کی حراست اور تشدد کے بعد اپنے لاپتہ شوہروں، بیٹوں یا والد کو گھر واپس لے جانے کی منتظر ہیں۔

Read Comments