بھارت نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں اپنے ہائی کمیشن سے غیر ضروری عملہ واپس بلالیا ہے۔ سفارت کار ڈھاکہ ہی میں ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ 20 سے 30 افراد پر مشتمل سینیر اسٹاف ہائی کمیشن میں موجود ہے۔ ڈھاکہ میں ہائی کمیشن کے علاوہ دیگر شہروں میں بھارتی سفارتی مشن بھی فعال ہیں۔
ایئر انڈیا کی ایک پرواز کے ذریعے ڈھاکہ اور دیگر شہروں سے بھارتی سفارتی مشنز کے غیر سفارتی عملے کے 190 ارکان نئی دہلی لائے گئے ہیں۔ چٹاگانگ، راجشاہی، کُھلنا اور سلہٹ میں بھارتی قونصلیٹ کام کر رہے ہیں۔
بھارت نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ فی الحال بنگلہ دیش کے سفر سے گریز کریں اور جو بھارتی باشندے اس وقت بنگلہ دیش میں ہیں وہ بھی غیر معمولی احتیاط برتیں۔ انہیں کم سے کم نقل و حرکت کی ہدایت کی گئی ہےی اور شناخت ظاہر کرنے سے گریز کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں کم و بیش 10 ہزار بھارتی باشندے مقیم ہیں۔
بھارت کے وزیرِخارجہ ایس جے شنکر نے منگل کو بتایا تھا کہ بنگلہ دیش میں مقیم 10 ہزار سے زائد بھارتی باشندوں کے حوالے سے نئی دہلی متفکر ہے اور اس سلسلے میں ڈھاکا میں حکام سے رابطے میں ہے۔ بھارتی ہائی کمیشن اور دیگر سفارتی مشنز کے ذریعے بھی بنگلہ دیش کی بھارتی کمیونٹی سے رابطہ برقرار رکھا گیا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک آل پارٹیز میٹنگ میں ایس جے شنکر نے کہا کہ بنگلہ دیش میں حکومت جاچکی ہے، عبوری حکومت تشکیل پانے والی ہے۔ صورتِ حال پریشان کن ضرور ہے مگر اِتنی زیادہ نہیں کہ وہاں سے تمام بھارتی باشندوں کو نکالنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کرنا پڑیں۔ رابطے برقرار ہیں اور بھارتی باشندوں کی سیکیورٹی یقینی بنانے پر پوری توجہ دی جارہی ہے۔
ایس جے شنکر نے بتایا کہ چند مندروں اور بھارتی باشندوں پر حملے کیے گئے ہیں اور اس حوالے سے بھی بھارت نے اپنی تشویش سے متعلقہ حکام کو آگاہ کردیا ہے۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا دھڑن تختہ کیے جانے کے بعد ملک بھر میں عوامی لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ اب تک عوامی لیگ کے 20 سے زائد رہنما ہلاک کیے جاچکے ہیں۔