امریکا نے پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کو امریکی سرزمین پر سیاستدانوں کے قتل کی منصوبہ بندی اور ایران سے قریبی تعلقات کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکی ایف بی آئی نے مقامی عدالت میں جمع کرائے دستاویز میں انکشاف کیا کہ آصف مرچنٹ نے رواں برس جون میں اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انہیں قتل کے لیے 5 ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی اور مرچنٹ کو امریکا سے فرار ہونے کی کوشش سے پہلے ہی انڈر کور افسران کی اطلاع پر گرفتار کیا۔
واضح رہے کہ اس وقت آصف مرچنٹ نیو یارک میں امریکی حکام کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے آصف مرچنٹ کی گرفتاری اور امریکا میں مبینہ قاتلانہ حملے کی سازش پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں اور ہم امریکی حکام سے رابطے میں ہیں، مزید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
آصف مرچنٹ پر الزامات
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بروکلن کی وفاقی عدالت میں استغاثہ کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات منظر عام پر لائی گئی جس میں آصف مرچنٹ کے مبینہ قتل کی سازش اور ایران سے متعلق ایف بی آئی نے الزامات عائد کیے ہیں۔
ایف بی آئی نے دعویٰ کیا کہ 46 سالہ آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر امریکی سرزمین پر ایک سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کے قتل کروانے کے لیے نیو یارک میں ’ہِٹ مین‘ یعنی کرائے کے قاتل کو بھرتی کیا۔
حملہ آور نے ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کا منصوبہ کیسے بنایا؟ سربراہ ایف بی آئی نے بتا دیا
واضح رہے کہ امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے پیش کیے جانے والے دستاویزات میں مبینہ اہداف کے نام نہیں دیے گئے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق ایف بی آئی نے دعویٰ کیا کہ آصف مرچنٹ نے جون کے اوائل میں ایک ’مخبر‘ سے نیو یارک میں ملاقات کی اور اُس شخص کو قتل کے منصوبے کی تفصیلات بتائی۔ دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر اپنے مقاصد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’ہاتھ سے بندوق کا نشان‘ بھی بنایا۔
ایف بی آئی کے مطابق آصف مرچنٹ نے جس شخص سے بات کی تھی اس نے ’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ کو اطلاع دی تھی۔ اس سے قبل آصف مرچنٹ ایران کے بعد پاکستان پہنچ تھے اور انہوں نے ایران میں کچھ وقت گزارا تھا۔
مرچنٹ پر الزام ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہدف کے گھر سے دستاویزات چُرائی جانی تھیں، مظاہرہ کیا جانا تھا اور ایک سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کا قتل کروایا جانا تھا۔
دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ آصف مرچنٹ نے اس شخص سے کہا کہ ان کی ملاقات اجرتی قاتلوں سے کروائی جائے جس کے بعد جون میں ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں سے ان کا رابطہ کروایا گیا۔
ان پر الزام ہے کہ انھوں نے جون کے دوران ایک ہِٹ مین یعنی اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انھیں قتل کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی۔
ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کا نیا رخ، ’حملہ آور اہلکاروں کے ریڈار پر بھی کئی بار آیا‘
عدالتی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ مبینہ طور پر قتل کے منصوبے کی تکمیل سے قبل 12 جولائی کو امریکہ چھوڑنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں پرواز کی بُکنگ بھی کر رکھی تھی۔
آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ امریکہ چھوڑنے کے بعد کوڈ ورڈ کی مدد سے رابطے میں رہیں گے مگر اسی روز امریکی حکام نے انھیں گرفتار کیا تاکہ وہ ملک نہ چھوڑ سکیں۔
ایران سے تعلقات کا الزام
اس موقع پر امریکی اٹارنی جنرل میرک بی گارلینڈ کا کہنا تھا کہ ’ایران کئی برسوں سے ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد انتقام کی کوششیں کر رہا ہے جسے محکمۂ انصاف کی جانب سے جارحانہ انداز میں ناکام بنایا جا رہا ہے۔ ’محکمہ انصاف ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا تاکہ ایران کے مہلک منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے اور امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔‘
ٹرمپ پر حملے کی ذمہ داری کس نے قبول کی؟ افغانستان سے ویڈیو جاری
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار کیے گئے پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کے ایران سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ منصوبہ ایران کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ’کسی بھی امریکی شہری یا سرکاری اہلکار کو قتل کرنے کی کوشش ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ایف بی آئی تمام وسائل کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے گی۔‘