بنگلہ دیش میں مظاہروں کے دوران شہری ہلاکتوں کی تعداد 440 تک پہنچ گئی ہے، جس میں ایک انڈونیشیائی شہری سمیت کم از کم 24 افراد کو ہجوم نے زندہ جلایا۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی ”پی ٹی آئی“ نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی رہنما شیخ حسینہ واجد کے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد ایک ستارہ ہوٹل میں ایک انڈونیشیائی شہری سمیت کم از کم 24 افراد کو ہجوم نے زندہ جلا دیا تھا۔
شیخ حسینہ کا دھڑن تختہ کرنے والی تحریک کا اصل ہیرو، ناھد اسلام کون ہے؟
ہجوم نے ضلع جوشور میں ضلع عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری شاہین چکلدار کی ملکیت زبیر انٹرنیشنل ہوٹل کو آگ لگائی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان متاثرین میں زیادہ تر بورڈرز تھے، جنہیں پیر کو رات دیر گئے زندہ جلا دیا گیا۔
بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق پولیس سے جھڑپوں میں ساور اور دھامرئی میں 18 افراد ہلاک ہوئے، دارالحکومت کےعلاقے اترا میں 10 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
شہری لباس میں ملبوس افراد نے مظاہرین پر فائرنگ کی، یہ گولیاں اترا ایسٹ پولیس اسٹیشن سے چلائی گئیں، جوابی کارروائی میں مشتعل افراد نے تھانے کو آگ لگا دی۔
بنگلہ دیشی فوج میں اکھاڑ پچھاڑ، حسینہ واجد کا قریبی جرنیل فارغ
حبی گنج میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم سے 6 افراد ہلاک ہوئے، جیسور کے ہوٹل کو نامعلوم افراد نے آگ لگائی جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے۔
مختلف اسپتالوں نے ڈھاکہ میں 78 اموات کی تصدیق کی۔
مقامی میڈیا کے مطابق، وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ملک سے فرار کے بعد مزید 100 ہلاکتیں ہوئیں۔ جس کے بعد فوج کی طرف سے تشدد سے متاثرہ ملک میں امن بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
بنگلہ دیش کی شیر پور جیل سے 500 سے زائد قیدی فرار
بنگلہ دیشی نیوز آؤٹ لیٹ کی رپورٹ کے مطابق، ہلاکتوں کی اتنی زیادہ تعداد کے باوجود منگل کو پولیس اور فوج کے اہلکاروں کے سڑکوں پر گشت کے ساتھ حالات کے معمول پر واپسی کے آثار نمودار ہوئے اور مظاہروں کی وجہ سے طویل مدت سے بند اسکول دوبارہ کھل گئے لیکن بچوں کی حاضری کم دیکھی گئی۔
گزشتہ 17 دنوں سے نافذ کرفیو صبح 6 بجے ختم ہوچکا ہے۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک دن کی بدامنی اور کشیدہ رات کے بعد امن و امان کی صورتحال آج کافی حد تک قابو میں رہی۔
مقامی میڈیا کی خبر کے مطابق، پبلک ٹرانسپورٹ، بشمول بسیں دوبارہ شروع کر دی گئی ہیں اور تاجروں نے اپنی دکانیں دوبارہ کھول دی ہیں۔ سرکاری گاڑیاں بھہی دفاتر کی طرف جاتی دیکھی گئی ہیں اور بیٹری سے چلنے والے متعدد رکشے سڑکوں پر واپس آ گئے ہیں۔