کیا آپ کو معلوم ہے کہ جانداروں کی طرح کہکشائیں بھی دل اور پھیپھڑے رکھتی ہیں؟ یقیناً یہ بات سن کر آپ کو یقین نہیں آرہا ہوگا مگر ایسا ایک تحقیقی مقالے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔
تحقیق کے مطابق کہکشائیں ”دل اور پھیپھڑوں“ کے مشابہ میکانزم کے ذریعے اپنی نشوونما کو مؤثر طریقے سے منظم کرکے ابتدائی موت سے بچنے کا انتظام کرتی ہیں۔
چاند کی وجہ سے دن 25 گھنٹے کا ہونے والا ہے
اگر یہ میکانزم موجود نہ ہوتے تو یہ کائنات بڑے پیمانے پر زومبی کہکشاؤں’ سے بھری ہوتی، جن میں مردہ ستارے موجود ہوتے۔
زومبی کہکشاں سے مراد کچھ کہکشاؤں میں نئے ستارے بننے کیلئے مادہ تو موجود ہوتا ہے مگر کسی وجہ سے ان میں نئے ستاروں کی پیدائش بند ہو جاتی ہے۔
رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہونے والی یہ تحقیق اس راز سے نمٹتی ہے کہ کہکشائیں توقع سے بڑی کیوں نہیں ہیں۔
یونیورسٹی آف کینٹ کے سینٹر آف ایسٹرو فزکس اینڈ پلینٹری سائنس میں پی ایچ ڈی کے طالب علم اور محقق کارل رچرڈ اور مائیکل ڈی سمتھ مذکورہ تحقیق کے مصنفین ہیں۔
مصنفین کے مطابق کہکشاؤں کے مراکز میں موجود دیو ہیکل بلیک ہولز دلوں کی طرح کام کرتے ہیں، جب کہ ان میں دوئبرووی سپرسونک جیٹ خارج کرتے ہیں جو کہ پھیپھڑوں کی طرح کام کرتے ہیں،یعنی یہ کہکشاں کی سانس لینے اور توانائی کی تقسیم کو منظم کرتے ہیں۔
مصنفین نے بتایا کہ جیسے سانس لینے کے دوران ہمارے پھیپھڑے پھولتے ہیں اور ان کا سائز چھوٹا بڑا ہوتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح بلیک ہولز میں جیٹس کی توانائی پھیل کر ہلچل پیدا کرتی تھی۔ یہ انرجی ان نیبولا کے اندر پھیل کر گریویٹی کے مخالف کام کرتی اور مادے کو بکھیرتی ہے۔