پاکستانی بچے آج کل ’ٹک ٹک‘ گیم کھیل کر لطف اندوز ہورہے ہیں۔ دو پلاسٹک کی گیندیں ڈوری سے بندھی ہوتی ہیں انھیں ٹکرانے پر ٹک ٹک کی آواز نکلتی ہے، دراصل یہ امریکی کھلونا ہے، جسے ”کلیکر ٹوائے“ کہا جاتا ہے۔
گلی محلوں میں بچے ہاتھوں میں ٹک ٹک گیم لیے دکھائی دیتے ہیں اور بعض مقامات پر بچوں کے گروپ ٹک ٹک مقابلہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جس میں دیر تک گیندوں کو ایک ہی انداز میں ٹکراتے رہنے کا عمل جاری رکھنا ہوتا ہے، جو شخص زیادہ دیر تک یہ عمل کامیابی سے جاری رکھتا ہے، وہ جیت جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ کھلونا بظاہر سائنس کے انرجی، مومنٹم اور فریکشن جیسے بنیادی اصولوں کے تحت بنایا گیا ہے جس میں آپس میں جڑے دو گیندوں کو خاص رفتار سے ہاتھ کی انگلی سے مسلسل اچھالا جاتا ہے کہ وہ آپس میں ٹکرانے لگتے ہیں اور ”ریدھم“ بنا لیتے ہیں۔
ٹک ٹک گیم سے جہاں بچے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں بچوں کے والدین اس کھلونے کے شور سے پریشان دکھائی دیتے ہیں
اس گیم کو دراصل ”کلیکر ٹوائے“ کہا جاتا ہے۔ یہ کھلونا 1960 ءکی دہائی میں امریکا میں بنایا گیا تھا اور 1970 کے بعد یہ دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ عام طور پر لکڑی یا دھات سے بنائے جاتے تھے، مگر سخت ایکریلک پلاسٹک زیادہ مقبول ہوا۔ یہ کھلونا بولیڈوراس نامی ہتھیار سے مشابہت رکھتا تھا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق 1960 ء اور 1970 ء کی دہائی میں امریکا میں کھلونوں کی حفاظت کی ذمہ داری ایف ڈی اے پر تھی۔ 1966 ء کے ایک ایکٹ کے تحت ایف ڈی اے کو خطرناک کھلونوں پر پابندی کا اختیار ملا، جس میں کلیکر بھی شامل تھا۔ جب کہ 1974 ء میں امریکی مارشل سروس نے کلیکرز کی 50 ہزار کی کھیپ ضبط کی تھی۔ ایس نوولٹی نامی کمپنی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی، مگر عدالت نے کلیکرز کو مکینیکل خطرہ قرار دیا۔
تاہم حال ہی میں مارکیٹ میں موجود کلیکر کھلونے پرانے جان لیوا کلیکرز سے کچھ مختلف ہیں۔ ان میں جدید قسم کا پلاسٹک استعمال ہوتا ہے جو ٹوٹنے کے خطرے کو کم کرتا ہے، مگر ہاتھ سے نکلنے پر یہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔