اسلام آباد ہائیکورٹ میں کم سن بچی حوالگی کے کیسں کی سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے ہیں کہ جھوٹ مت بولیں، میرے پاس یہاں سے سیدھا جیل بھجوانے کا بھی اختیار ہے جبکہ عدالت نے بچی کے والد کو عدالت میں روکتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں حکم نامہ میں کہا گیا کہ بچی کو منگل کو ہر صورت اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں طلاق کے بعد سابقہ شوہر کی جانب سے ڈھائی سالہ بچی چھینے جانے کے خلاف بچی کی والدہ کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے والدہ سحرش بتول کی درخواست پر سماعت کی۔
دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچی کے والد کو عدالت میں روکتے ہوئے بچی حوالگی سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے تحریری حکم نامہ جاری کرتےہوئے عنایہ بتول کو بازیاب کرا کر منگل کو پیش کرنے کا حکم دیا۔
حکم نامے کے مطابق بچی کے والد افضل محمود بچی کی بازیابی میں قانون کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاؤن قانون کے مطابق سختی سے کم سن بچی کی بازیابی یقینی بنائیں، ایس ایچ او بچی کی بازیابی کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھانے کے بھی مجاز ہوں گے۔
عدالت نے کہا کہ اگر بچی اسلام آباد کی حدود سے باہر ہے تو آزاد کشمیر پولیس کی معاونت سے بچی کو بازیاب کرایا جائے، بچی کو کل (منگل) ہر صورت اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے، ایس ایچ او شہزاد ٹاؤن بچی کو پیش کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو ڈی آئی جی آپریشنز منگل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، کیس کو منگل 6 اگست 2024 کو دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔
اس سے قبل دوران سماعت عدالتی حکم پر پولیس نے بچی کے والد افضل محمود کو عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے افضل محمود سے استفسار کیا کہ بچی کہاں ہے، جس پر افضل محمود نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت کے ساتھ ایسا مت کریں، جھوٹ مت بولیں، ہم نے بچے بیرون ملک سے بھی منگوالیے ہیں، کیوں بچی کا مستقبل تباہ کررہے ہیں، بچی پر آپ کا بھی حق ہے لیکن فیملی کورٹ سے رجوع کریں۔
افضل محمود نے کہا کہ جس وقت کا یہ بتا رہے میں نے بچی اور اسے اس کے دفتر کے باہر اتارا تھا، اس کے بعد کا علم نہیں جبکہ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 6 جون 2024 کو ٹرائل کورٹ سے عدم پیشی پر درخواست خارج ہوئی جو انہوں نے خود فائل کی تھی۔
افضل محمود نے کہا کہ 10 مئی 2024 کو ان دونوں کو اپنی گاڑی میں ان کے گھر سے اٹھا کر دفتر چھوڑا، میں نے وکیل کو فون کرکے کسٹڈی کا دعوی فائل کرایا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کو وقت دیتا ہوں، بیٹھ کر سوچ لیں، میرے پاس یہاں سے سیدھا جیل بھجوانے کا بھی اختیار ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ والد اپنے بیان پر قائم ہیں، جس دن کشمیر کی عدالت میں درخواست دی اس روز بچے والد کے پاس تھے، وکیل سے انہوں نے کسٹڈی کا کہا اور وکیل نے گارڈین فائل کردی، 2 ایف آئی آر ہوچکی ہیں۔
افضل محمود کے وکیل نے کہا کہ پہلے تھانہ کھنہ اور بعد میں تھانہ شہزاد ٹاؤن کا بتایا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اس کو جانے مت دینا ابھی آرڈر لکھواتا ہوں۔