سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے بجلی پیدا کرنے والے تمام اداروں (آئی پی پیز) سے معاہدوں کی کاپیاں طلب کرلی ہیں۔ سینیٹر محسن عزیز کہتے ہیں کہ توانائی کا شعبہ ملک کے لیے قومی سلامتی اور ایمرجنسی کا معاملہ بن چکا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے 1994 سے اب تک آئی پی پیز سے کیے جانے والے تمام معاہدوں کی کاپیاں طلب کی ہیں۔ اسپانسرز کے نام بھی مانگے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان معاہدوں میں مختلف ادوار میں کی جانے والی تبدیلیوں کی تفصیل بھی طلب کی گئی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ جس وقت پاکستان میں آئی پی پیز سے معاہدے کیے گئے تب خطے کے دیگر ممالک نے بیرونی آئی پی پیز سے معاہدے کن نرخوں اور شرائط پر کیے۔
محسن عزیز کی سربراہی میں قائم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا واحد اجلاس 12 جولائی 2024 کو ہوا تھا جس کے بنیادی نکات یکم اگست 2024 کو جاری کیے گئے۔ کمیٹی کے اگلے اجلاس سے قبل پاور ڈویژن مطلوب معلومات کمیٹی کے سیکریٹریٹ سے شیئر کرے گی۔
حکومت کا بجلی کی قیمت میں کمی کیلئے مہنگے پاور پلانٹ ختم کرنے کا فیصلہ
ذرائع نے بتایا ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کا دوسرا اجلاس دو بار طے کیا گیا تاہم ناگزیر وجوہ کے باعث ملتوی کردیا گیا۔ ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ کمیٹی سیکریٹریٹ نے منظور شدہ منٹس جاری نہیں کیے۔
سینیٹر محسن عزیز کا کہنا ہے کہ توانائی کے بحران نے ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ بجلی کی لاگت بہت زیادہ ہے، اوور بلنگ کا بھی مسئلہ ہے، ملک بھر میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے بھی کروڑوں لوگوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے، بدانتظامی نے معاملات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی انتہائی بنیادی ضرورت ہے مگر اس وقت اُس کا نرخ اِتنا زیادہ ہے کہ عام آدمی کے لیے بل ادا کرنا دشوار ہوچکا ہے۔ حد یہ ہے کہ مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے لوگ بھی بجلی کے بل ادا کرنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ صنعت کاروں کے لیے بھی علاقائی اور عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ آئی پی پیز سے ایسی شرائط پر معاہدے کیے گئے جو کسی بھی اعتبار سے عوام کے حق میں نہیں۔
محسن عزیز کا کہنا تھا کہ ہم آئی پی پیز کے معاملات کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں، کمیٹی کے معاملات کو اتفاقِ رائے اور باہمی احترام کے ساتھ چلانا میری ترجیح ہے۔
سینیٹر شبلی فراز نے این ٹی ڈی سی میں باقاعدہ مینیجنگ ڈائریکٹر کا تقرر نہ کیے جانے کی طرف توجہ دلائی۔ وزیر توانائی نے کہا کہ بعض مقدمات کے باعث اس میں تاخیر ہو رہی ہے تاہم ایک ماہ کے اندر ریگیولر ایم ڈی کا تقرر کردیا جائے گا۔
توانائی کے وزیر نے بتایا کہ پاور سیکٹر کی 23 فالٹ لائنز کی نشادہی ہوئی ہے جو متعلقہ قائمہ کمیٹی سے شیئر کی جائیں گی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ملک میں توانائی کی طلب و رسد سے متعلق معملات کو ذہن نشین نہ رکھتے ہوئے منصوبہ کی گئی جس سے توانائی کا بحران پیدا ہوا ہے۔ 40 ہزار میگاواٹ کی منصوبہ بندی کگئی تاہم سردیوں میں ہماری مجموعی طور طلب 8 سے 12 ہزار میگاواٹ تک ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ نے بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔
شبلی فراز نے متعلقہ منصوبہ بندی میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی تاکہ معاملات کو درست کرکے عوام کے لیے ریلیف کا اہتمام کیا جاسکے۔ ملک کو توانائی اور پنشن کے معاملات نے خرابیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔
چیئرمین محسن عزیز کا کہنا تھا کہ لاگت کا حساب لگانے کا طریقہ بدلنا ہوگا کیونکہ اس حوالے سے پائی جانے والی خرابیوں کے باعث عوام کے ساتھ ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
سیکریٹری توانائی نے بھی تسلیم کیا کہ لاگت طے کرنے کے فارمولے کے درست کرنے کے حوالے سے تجاویز کمیٹی کے سامنے رکھی جائیں گی۔