اسرائیلی میڈیا نے دعوٰی کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایران آج صبح کسی بھی وقت اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل کے دارالحکومت تیل ابیب پر حملہ کرسکتا ہے۔
دوسری جانب امریکی نیوز ویب سائٹ Axios نے دو امریکی حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ جنرل کوریلا کا حالیہ دورہ اسرائیل، ایران اور حزب اللہ کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد ایک اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ تین امریکی اور اسرائیلی عہدے داروں نے کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ایران آج اسرائیل پر حملہ کر دے گا۔
دوسری جانب لبنانی میڈیا نے مختلف رپورٹس میں ایرانی قائدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس بار ایران کا ردِعمل علامتی نوعیت کا نہیں ہوگا۔ اسرائیل نے بھی صورتِ حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بھرپور جنگ کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔
امریکی طیارہ بردار جہاز روز ویلٹ آبنائے ہرمز پہنچ گیا ہے۔ اس پر 90 طیارے لدے ہوئے ہیں۔ اس طیارہ بردار جہاز پر جدید ترین راڈار سسٹم اور فضائی دفاعی نظام بھی نصب ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے امریکا کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
امریکی ایوانِ صدر کے ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جوناتھن فائز کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں فوجی اقدامات کا مقصد کشیدگی کم کرنا، حملوں کو روکنا، اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانا اور علاقائی تنازعات سے بچنا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کے لیے امریکا، فرانس، برطانیہ، اٹلی اور مصر نے سفارتی کوششیں بھی تیز کردی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عراقی وزیراعظم سے گفتگو کی جس میں علاقائی کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
امریکی کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان کربی کا کہنا ہے جنگ بندی معاہدہ ہی تنازع کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ کشیدگی میں اضافے کے پیشِ نظر امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب نے اپنے اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔ کینیڈا نے اپنے شہریوں کو اسرائیل چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔
اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفادی نے تہران میں ایران کے صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کی ہے۔ کسی بھی اردنی وزیر خارجہ کا بیس سال میں ایران کا یہ پہلا دورہ ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق ایرانی صدر نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل اسرائیل کی بڑی غلطی ہے، جواب ضرور دیا جائےگا۔
اردنی وزیرخارجہ کی ایرانی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ دورے کا مقصد خطے میں کشدگی کم کرنے کے حوالے مشاورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایران اور اردن کے اختلافات دور کرنے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔