پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر ہونے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئینی ماہرین، پاکستان بار کونسل کی قرارداد اور دو ججوں کے فیصلے کی روشنی میں انتہائی متنازع ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں عرفان صدیقی نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر ہونے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق کہا کہ ’دو معزز جج صاحبان کے جامع اختلافی نوٹ، سرکردہ آئینی ماہرین کی رائے اور پاکستان بار کونسل کی حالیہ قرارداد کو پشاور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے سے ملا کر دیکھا جائے تو 12 جولائی کو 8 جج صاحبان کا فیصلہ آئین و قانون کی واضح شقوں سے متصادم ہونے کے باعث انتہائی متنازع ہے۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’یہ فیصلہ دینے والے جج صاحبان کو، بالخصوص وہ جنہیں مستقبل میں چیف جسٹس کی باوقار مسند پر بیٹھنا ہے، یہ سوچنا ہو گا کہ کیا وہ اس آئین شکن فیصلے کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ساری عمر وضاحتیں دیتے رہیں گے یا سنجیدگی سے اپنے فیصلے پر نظرثانی فرماتے ہوئے آئین و قانون کی روشنی میں اس کے سقم دور کرکے تاریخ کے سامنے سرخرو ہو جائیں گے۔‘
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے سے متعلق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے ہفتے کو تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے بینچ کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا، دونوں ججز کا اختلافی فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے۔
مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکلز سے باہر جا کر لکھا گیا، عطا تارڑ
اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا۔
دونوں ججز نے اختلافی نوٹ میں اکثریتی فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے پر سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا کہ 15 دن کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 51، 63 اور 106 معطل کرنا ہوگا۔