چئیرمین واپڈا لیفٹننٹ جنرل (ر) سجاد غنی کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر میں صورت حال واقعی گمبھیر ہے لیکن ’نیّا نہیں ڈوبے گی‘۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے چئیرمین واپڈا نے لوگوں کی بددعاؤں اور گالیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے بحران میں واپڈا کا کوئی خاص کردار نہیں ہے، یہ نہ تو بجلی کی ترسیل کرتا ہے اور نہ تقسیم کرتا ہے۔ ’واپڈا سارے الزامات اپنی بہت ساری معصومیت کے ساتھ قبول کر رہا ہے، واپڈا کا آج کے بحران سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ واپڈا کا اس وقت کام صرف بڑے ڈیمز بنانا، بڑے پروجیکٹس لگانا اور انہیں چلانا اور ان سے بجلی بنانا بس اس حد تک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بن رہے ہیں، واپڈا کی بجلی پیداواری صلاحیت اس وقت ساڑھے 9 ہزار میگاواٹ ہے جسے ہم اگلے پانچ سالوں میں ڈبل سے زیادہ کرنے جا رہے ہیں، یعنی 11 ہزار میگاواٹ اور بنانے جا رہے ہیں جو سسٹم میں آئے گی تو بجلی کی قیمت مزید سستی ہوجائے گی اور زراعت کیلئے 11 ملین ایکڑ فٹ پانی زیادہ ہوگا۔
عوام کا سستی بجلی کا خواب کب پورا ہوگا؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے کہا کہ واپڈا اس وقت کے مہنگے ترین حالات میں بھی چار روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی سپلائی کر رہا ہے، مہنگے یونٹس کی وجہ کچھ مسائل ترسیل کے ہیں اور تقسیم کاری میں ہیں، اس میں کچھ نااہلیت ہے، کچھ چوری ہے اور کچھ آئی پی پیز پر انحصار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا انحصار ہائیڈرو پاور یعنی پن بجلی پر ہونا چاہئیے، لیکن اس وقت بدقسمتی سے پن بجلی 25 فیصد ضروریات پوری کر رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے چالیس سال ضائع کردئے، آخری بڑا ڈیم تربیلا تھا جو ستر کی دہائی میں بنا تھا اور اب جا کر دیامر، بھاشا اور مہمند ڈیم بن رہے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں کالاباغ ڈیم اور نوے کی دہائی میں دیامر بھاشا ڈیم بننا چاہئیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی کالاباغ ڈیم معاشی لحاظ سے سب سے زیادہ قابل اور قابل تعمیر ڈیم ہے جو آج بھی بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور ریجن کیلئے مہمند ڈیم کافی ہوگا۔
چئیرمین واپڈا نے کہا کہ آج اس ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے سیاسی کرداروں کو ایک پیج پر لانا زیادہ آسان ہے، حالیہ سیلاب میں سندھ کا ایک بہٹ بڑا حصہ دوب گیا، اب سندھ میں یہ ادراک ہے کہ سندھ میں جو سیلاب کا پانی جمع ہوا وہ اوپر کہیں شمال میں ہی جمع ہوجانا چاہئیے تھا، یعنی کوئی ڈیم بن جانے چاہئیے تھے جو اس سیلابی پانی کو روک سکتے۔
آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی گنجائش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر معاہدے میں نظر ثانی کی گنجائش ہوتی ہے، کوئی معاہدہ واٹر ٹائٹ نہیں ہوتا، بشرطیکہ دونوں فریق اس بات پر متفق ہوں کہ حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ ہمیں نظرثانی کرنی چاہئیے۔ ’اگر کسی ایسی صورت میں یہ نظرثانی آئی پی پیز کی طرف سے ممکن نہیں ہے تو میری یہ رائے اور مشورہ ہوگا کہ آنے والے چند سالوں میں حکومت پاکستان کو ان میں سے مہنگی آئی پی پیز خود خرید لینی چاہئیں‘۔
چئیرمین واپڈا نے کہا کہ ان آئی پی پیز کو خریدنے کیلئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بنائی جاسکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں لیفٹننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے کہا کہ ’افواج پاکستان اس بارے میں بہت سینسیٹِو (حساس) ہیں کہ ملک کی سلامتی کے سارے امور کے اوپر حکومت کے ساتھ مل کر ایک ایسی نظر رکھی جائے کہ کوئی ایسی چیز ہے کوئی اسٹیٹ (ریاست) کے ستون ہیں وہ کمزور نہ پڑ جائیں، جس میں معیشت ایک بہت بڑا اور بہت مضبوط پلر ہے‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ واپڈا نے خیبرپختونخوا حکومت کو آبی وسائل پر نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی مد میں کوئی پیسہ نہیں دینا، انہیں ادائیگی سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے کرنی ہے، سی پی پی اے ہمیں پیسے دیتی ہے ہم آگے صوبے کو دے دیتے ہیں، اس وقت سی پی پی اے پر خیبرپختونخوا کے واجبات تقریباً 34 ارب روپے ہیں۔