سائنس بندروں کو انسانوں کے آباؤ اجداد قرار دیتی آئی ہے، اس موضوع پر کئی طویل مباحثے بھی ہوئے، لیکن اب ایک نئی تحقیق نے بندروں کی انسانی صلاحیت سے کے حوالے سے ایک نیا انکشاف کیا ہے، نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بن مانسوں (چمپینزی) میں بھی انسانوں کی طرح بولنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
بن مانسوں کی ویڈیوز کی جانچ پر مشتمل ایک مطالعے کے مطابق بن مانسوں کو ”ماما“ اور ”کپ“ جیسے الفاظ ادا کرتے سنا گیا ہے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ’بنی نوع انسان کی قریب ترین یہ نسل‘ حیرت انگیز طور پر انسانوں کی طرح بولنے پر قادر ہے۔
چین نے نئے کلوننگ نظام کے تحت بندر تیار کرلئے
زمین پر موجود تمام حیوانات میں سے انسانوں میں ایک منفرد صلاحیت ہے کہ وہ نہ صرف معنی بیان کرنے کے لیے الگ الگ الفاظ تشکیل دے سکتے ہیں بلکہ ان الفاظ کو سماجی حالات میں لاگو کرتے ہیں۔
اب چمپینزی کے انسانی الفاظ بولنے کی ویڈیوز کا جائزہ لینے والے محققین نے اس بات کو چیلنج کردیا ہے۔
نئی اسٹڈی یہ ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح بن مانس اصل میں ناقابل یقین طور پر انسانی بولی بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ماہرین اب تک حتمی طور پر نہیں بتا سکے کہ انسان نے زبانیں کب تیار کیں, تاہم تخمینوں کے لحاظ سے یہ عرصہ 3 لاکھ سال سے 50 سال تک کا ہے۔
یہ بڑے پیمانے پر قبول کیا جاتا ہے کہ انسان ہی واحد جاندار ہیں جن میں صوتیاتی صلاحیت اور نئی آوازیں سیکھنے کی صلاحیت ہے۔
برسوں سے محققین نے دوسرے جانوروں میں زبان کے ساتھ تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
بندر نے اینٹ مار کر ”بندہ“ مار ڈالا
سب سے زیادہ نتیجہ خیز تجربہ انسانوں اور بندروں کے درمیان ہوا ہے۔ شاید سب سے مشہور مثال ”کوکو“ ہے یعنی وہ گوریلا جسے اشاروں کی زبان استعمال کرنا سکھایا گیا تھا۔
سنہ 2023 میں ایک تجربے میں محققین نے دریافت کیا تھا کہ بن مانس اپنے ماحول کے بارے میں منفرد خیالات پیش کرنے کے لیے نحو اور مخصوص آوازوں کا استعمال کرتے ہیں۔
تاہم سائنس دانوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انسانوں کے علاوہ کوئی بھی معلوم جانور ”زبان اور الفاظ“ کے ساتھ بات چیت نہیں کرتا۔ اس کے بجائے جانور منفرد آوازوں، اشاروں اور دیگر بصری ڈسپلے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔
یہ تعاملات اکثر انتہائی جذباتی اور فطری ہوتے ہیں جو انہیں ایک ترقی یافتہ زبان سے کم بناتے ہیں بلکہ کوڈز کا ایک ایسا نظام بناتے ہیں جس میں وہ مختلف سماجی سیاق و سباق میں ترمیم کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔
شاہ رخ اسٹائل کے ساتھ کینگرو اور سگار پیتی لومڑی
اس کی وجہ سے محققین کو طویل عرصے سے یقین تھا کہ بندروں میں ضروری اعصابی مہارت یا اپنی آواز کی ہڈیوں پر جسمانی کنٹرول کی کمی ہے جو زبان کی نشوونما کے لیے ضروری ہوگی۔
انسانوں کے قریبی ’رشتہ داروں‘ کے طور پر بن مانس نے زبان کے ارتقا کو سمجھنے والے محققین کو اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا زیادہ قائل کیا ہے۔
سویڈن، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ کے ماہرین کی ایک حالیہ تحقیق میں اب پہلی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ بن مانس واقعی انسانوں کی طرح بات چیت کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
حال ہی میں محققین کی ایک ٹیم نے پلے ہوئے بن مانسوں کی تین ویڈیوز کا جائزہ لیا جن میں وہ اپنے مالکان سے الفاظ بولتے دکھائی دیے۔
پہلی ویڈیو ریناٹا نامی مادہ بن مانس کی تھی جو سنہ 1962 میں اٹلی میں اپنے کیئر ٹیکر کے ساتھ تھی۔ ویڈیو میں ریناٹا کو جب بھی اس کا ٹرینر اسے ٹھوڑی پر چھوتا تو وہ ماما کا لفظ ادا کرتی۔
انسان کی دُم مِٹنے کا راز جاننے کیلئے چوہوں پر تجربے
دوسری ویڈیو میں سنہ 2000 کی دہائی کے وسط میں فلوریڈا کے پام ہاربر میں سن کوسٹ پرائمیٹ سینکچویری سے تعلق رکھنے والے جونی نامی ایک بن مانس کو بھی ماما کہتے سنا گیا۔
کلپس سے آڈیو کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے دو بن مانس کی بولیوں کے صوتیات کا ایک انسانی مرد سے موازنہ کیا جس کے نتیجے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بن مانس زبان بولنے کے لیے ضروری حرفی ڈھانچہ تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محققین کا استدلال ہے کہ انسانوں اور بندروں کے درمیان بولنے کی صلاحیت مشترک ہے اور یہ کہ بن مانس اور انسان دونوں ان کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہ اس دیرینہ عقیدے کو بھی چیلنج کرتا ہے کہ زبان کی نشوونما کے لیے انسانوں میں دماغی افعال میں ایسا ارتقا درکار ہوتا ہے جس کا تجربہ بن مانس اور دیگر بندروں نے نہیں کیا۔
بندر کی سیلفی پر عدالتی جنگ ،فوٹوگرافر کامیاب
محققین نے وضاحت کی ہے کہ بندر کی آواز کی پیداواری صلاحیتوں انڈر ایسٹیمیٹ کیا جاتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بن مانس کے پاس بولنے کے لیے ضروری اعصابی بلڈنگ بلاکس ہوتے ہیں اور وہ انسانوں کی طرح بول سکتے ہیں۔