سپریم کورٹ آف پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کیس میں 30 جولاٸی کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دے دیا جبکہ عدالت نے پنجاب حکومت کی پالیسی سازی کے لیے ایک ماہ کی مہلت کی استدعا منظور کرلی۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینج نے 30 جولائی کو سماعت کی تھی، جس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دے دیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ یکم جولائی کو 15 دن میں موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی فعال کرنے کا حکم دیا تھا، ایک ماہ گزرنے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی فعال کرنے پر پیشرفت نہ ہوسکی، مون سون سیزن شروع ہوچکا اس لیے عدالت جلد اتھارٹی فعال دیکھنا چاہتی ہے۔
پنجاب، بلوچستان کی حکومتیں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات کی تفصیلات فراہم کریں، سپریم کورٹ
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ وزارت کلائیمیٹ چینج موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی فعال کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی، 15 اگست تک اتھارٹی فعال نہ ہوئی تو سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی سے جواب لیا جائے گا کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے قانون 7 سال پہلے بنا لیکن اتھارٹی آج تک قائم نہ ہوسکی، سیکرٹری کلائیمیٹ چینج موسمیاتی تبدیلی سے درپیش چیلنجز اور نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات سے آگاہ نہ کرسکے۔
چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ صوبے میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوئی پالیسی موجود نہیں، پنجاب حکومت کی پالیسی سازی کے لیے ایک ماہ کی مہلت مانگنے کی استدعا منظور کی جاتی ہے۔
تحریری حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف سیکرٹری سندھ نے صوبائی حکومت کے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات سے آگاہ کیا، سندھ حکومت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کافی متحرک نظر آتی ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر معاونت کی ہدایت کر دی۔