پنجاب حکومت نے راولپنڈی میں 350 اور صوبے بھر میں 5,863 سرکاری اسکولوں کی نجکاری مکمل کر لی ہے۔
یہ فیصلہ اساتذہ تنظیموں کے احتجاج اور ہڑتالوں کے باوجود سامنے آیا ہے۔ رواں ہفتے ان تمام اسکولوں کو سرکاری طور پر این جی اوز، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF) اور مختلف پرچیزنگ گروپس کے حوالے کر دیا جائے گا۔
دوسرے مرحلے میں مزید 7137 سرکاری سکولوں کی نجکاری کی جائے گی۔ درخواستوں کی وصولی کے بعد جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔ یہ اسکول 15 اگست سے پرائیویٹ مینجمنٹ کے تحت دوبارہ کھلنے والے ہیں۔
5,863 پرائیویٹائزڈ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو دوسرے سرکاری اسکولوں میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ نئی انتظامیہ اپنے اساتذہ اور ہیڈ ماسٹرز کی خدمات حاصل کرے گی۔
پرائیویٹائزڈ اسکولوں کے ایڈمنسٹریٹرز اور پرنسپلز کی تنخواہ 50 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جبکہ اساتذہ کو 30 ہزار سے 40 ہزار روپے کے درمیان تنخواہ ملے گی۔
ان تنخواہوں کی بنیاد پر بھرتیاں شروع ہو چکی ہیں اور ان اسکولوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کرنے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ نجکاری کا دوسرا مرحلہ 14 اگست تک مکمل ہونے کی امید ہے۔
اساتذہ کی تنظیموں نے نجکاری کی شدید مخالفت کی ہے۔ پنجاب پرائمری، ایلیمنٹری اور سیکنڈری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سربراہ عبدالرؤف کیانی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پرائمری سے میٹرک تک مفت تعلیم فراہم کرنا آئینی طور پر فرض ہے۔
انہوں نے پنجاب حکومت پر سرکاری اسکولوں کو فروخت کرکے آئین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے کمرشل علاقوں میں اربوں روپے کی قیمتی اراضی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کیانی نے نجکاری کے خلاف سخت احتجاج کا انتباہ دیا۔