Aaj Logo

اپ ڈیٹ 01 اگست 2024 11:26pm

اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر پاکستانی مذمت سے ’اسرائیل‘ کا نام نکالنے پر عوام حیران

فلسطینی مزاحمتی تنظیم ”حماس“ کے شہید سربراہ اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل پر پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے مذمتی بیان میں ”اسرائیل“ کا نام لکھ کر ہٹا دینا تنقید کی زد میں آگیا ہے۔

اسماعیل ہنیہ کو 31 جولائی کی رات اسرائیل کی جانب سے ایران میں نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ شہید ہوگئے تھے۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر عالمِ اسلام نے کھلے الفاظ میں اس کارروائی کی مذمت کی اور اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا، لیکن بعض نے اسرائیل کا ذکر نہ کرنے میں عافیت جانی۔

تاہم، سب سے انوکھا کام پاکستانی حکومت نے کیا۔

پاکستانی وزارتِ خارجہ کے آفیشل ”ایکس“ اکاؤنٹ پر 31 جولائی 2024 کو ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کی مذمت کی گئی، لیکن اس پریس ریلیز کو فوری حذف کر کے ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ جاری کیا گیا، جس نے سوشل میڈیا صارفین کی توجہ حاصل کرلی۔

اسرائیل حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ تک کیسے پہنچا؟

پریس ریلیز کا ابتدائی متن

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ابتدائی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستان حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں قتل کیے جانے کی شدید مذمت کرتا ہے۔

ہم اسماعیل ہنیہ کے اہل خانہ اور فلسطینی عوام کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے جو انصاف اور دہشتگردی سے بالاتر ہے۔

ہم یہ دیکھ کر حیران ہیں کے یہ بے رحم عمل اس وقت کیا گیا کہ جب ایران کے صدر کی حلف برداری کی تقریب منعقد کی گئی تھی، جس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم سمیت متعدد غیر ملکی شخصیات نے شرکت کی۔

پاکستان خطے میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی جارحیت پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ حالیہ کارروائی پہلے سے ہی عدم استحکام کے شکار خطے میں ایک خطرناک اضافہ ہے جو امن کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔

امریکا کا 9/11 کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور دیگر کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا

متن میں کیا تبدیل کیا گیا؟

اس پریس ریلیز کو حذف کرکے چند گھنٹے بعد وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی نئی پریس ریلیز میں متن وہی رہا لیکن صرف ایک لفظ حذف کردیا گیا جو پورے متن کو ہی تبدیل کرگیا۔

نئی پریس ریلیز میں سے لفظ ”اسرائیل“ ہٹا دیا گیا اور صرف ”جارحیت“ پر اکتفا کیا گیا۔

سوشل میڈیا پر حذف کی گئی پریس ریلیز اور نئی پریس ریلیز کے ایک ساتھ اسکرین شاٹس وائرل ہورہے ہیں جن پر ایکس صارفین کی جانب سے شدید ردِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ایکس صارفین کا ردِعمل

ایک صارف نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’شرم سے ڈوب مرو، پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت بھی نہیں کر سکتے‘۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’یہ ریاست صیہونی کی کٹھ پتلی بن گئی ہے، اللہ اس ملک اور اس کے لوگوں پر اپنا رحم کرے‘۔

ایک اور ’ایکس‘ صارف نے لکھا کہ ’یہ بیانیہ بھی ہماری جمہوریت جتنا کمزور نکلا‘۔

جبکہ ایک اور صارف نے سوال کیا کہ ’اسرائیل کا نام کیوں حذف کیا؟‘

ایران نے اسرائیل پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں

اس تنقید میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے بھی پوسٹ جاری کی گئی اور اس تبدیلی کو شرمناک قرار دیا گیا۔

پوسٹ میں کہا گیا کہ ’نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی کٹھ پتلی حکومتوں نے اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کرنے والے اپنے بیان سے اسرائیل کو نکال دیا، بے گناہ فلسطینیوں پر مظالم روکنے کے لئے کوششیں اور فلسطین کے لئے آواز اٹھانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ فلسطینی مردوں، عورتوں اور معصوم بچوں کی مسلسل نسل کشی کرنے والی اسرائیلی قابض افواج کے حملے جاری ہیں۔‘

پوسٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ کٹھ پتلی حکومت پاکستان کے عوام کی مرضی کے مطابق فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو۔

دفتر خارجہ کا بیان

اس حوالے سے پریس بریفنگ کے دوران جب صحافی نے سوال کیا تو دفتر خارجہ کی ترجمان نے جواب دیا کہ ہمارے عوامی بیانات بین الاقوامی سطح پر ہونے والی پیشرفت سے مطابقت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایسی صورتوں میں جہاں پیش رفت تیز رفتاری سے ہو رہی ہے اور نئی معلومات آ رہی ہیں۔ یہ ایک عمومی بیان ہے جو میں دینا چاہتی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز ایران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کے قتل کے حوالے سے میں نے اس واقعے پر ایک جامع بیان دیا۔ ہم نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کی ہے۔ ہم نے اپنے بیان میں ان کے اہل خانہ اور فلسطینی عوام سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ ہم خطے میں اسرائیل کی مہم جوئی اور ان کارروائیوں کی بھی مذمت کرتے ہیں جو وہ اپنے پڑوسیوں کے خلاف کر رہا ہے، بشمول 30 جون کو لبنان کے خلاف حملہ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام کارروائیاں، بشمول غزہ میں ہونے والی نسل کشی، اس خطے کے لیے خطرناک پیش رفت ہیں۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اسرائیل کو غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اس کے جنگی جرائم کا حساب دینا چاہیے۔

Read Comments