سائنس دانوں نے زمین پر زندگی کو بچانے کیلئے چاند پر جدید دور کی کشتیِ نوح بنانے کا مشورہ دیا ہے۔
بائیو سائنس جریدے میں شائع ایک نئے مقالے کے مطابق، اس ”قمری بائیو ریپوزٹری“ میں حیاتیاتی تنوع کی حفاظت کے لیے زمین پر سب سے زیادہ خطرے سے دوچار انواع کے کرایو پریزروڈ نمونے محفوظ کئے جاسکتے ہیں۔
چاند کے بہت دور ہونے کی وجہ سے یہ نمونے قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے لے کر جغرافیائی سیاسی تنازعات جیسے زمینی مسائل سے محفوظ ہوں گے۔
اس دنیا سے باہر کا یہ حل سمتھسونین کے نیشنل زو اینڈ کنزرویشن بائیولوجی انسٹی ٹیوٹ کے محققین نے تجویز کیا تھا، جن کا ماننا ہے کہ زمین پر موجود سب سے زیادہ خطرے سے دوچار انواع کو مستقبل میں طویل عرصے تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
محققین نے مقالے میں لکھا، ’متعدد اینتھروپوجنک ڈرائیورز کی وجہ سے، انواع اور ماحولیاتی نظاموں کے ایک بڑے تناسب کو عدم استحکام اور معدومیت کے خطرات کا سامنا ہے، جو ان انواع کو ان کے قدرتی ماحول میں بچانے کی ہماری صلاحیت سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔‘
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (IUCN) کی ریڈ لسٹ کے مطابق، دنیا بھر میں 45,300 سے زیادہ جانداروں کی انواع کو معدومیت کا خطرہ لاحق ہے، جو کہ خطرے سے دوچار 163,040 انواع کا 28 فیصد ہے۔
سانئس دانوں نے 18,000 سے زیادہ انواع کو ”خطرے سے دوچار“ اور مزید 10,000 کو ”انتہائی خطرے سے دوچار“ کے طور پر درج کیا ہے۔
جانوروں کے کچھ گروہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔ 26 فیصد ممالیہ جانوروں اور 12 فیصد پرندوں کے مقابلے میں 41 فیصد ایمفیبیئنز اور 37 فیصد شارکس اور ریز کو معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔
محققین نے جانوروں کی جلد کے نمونوں اور فبروبلاسٹ سیلز کو ذخیرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، جو کہ ایک قسم کے خلیے ہیں جو پورے جسم نے کنیکٹیو ٹشوز میں پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے ”اسٹاری گوبی“ ( Asterropteryx semipunctata ) نامی مچھلی کے نمونوں کی جانچ شروع کر دی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا کرایوپریزرویشن تکنیک کام کرے گی یا نہیں۔
کرایوپریزرویشن (Cryopreservation) ایک ایسا عمل ہے جو خلیوں، ٹشوز یا پورے جانداروں کو بہت کم درجہ حرارت پر ٹھنڈا کرکے محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان درجہ حرارت پر، حیاتیاتی سرگرمی، بشمول بائیو کیمیکل رد عمل جو سیل کی موت کا باعث بنتی ہیں، ان کو مؤثر طریقے سے روک دیا جاتا ہے۔
منجمد کرنے سے پہلے، حیاتیاتی مواد کا علاج کرائیو پروٹیکٹینٹس سے کیا جاتا ہے، جو ایسے مادے ہیں جو منجمد ہونے کے عمل کے دوران خلیات کو نقصان سے بچاتے ہیں۔
اس کے بعد مواد کو انتہائی کم درجہ حرارت پر آہستہ آہستہ ٹھنڈا کیا جاتا ہے، اس طرح برف کے کرسٹل کی تشکیل کو روکنے میں مدد ملتی ہے جو سیل کے ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
محققین کا مشورہ ہے کہ چاند ان مواد کو ذخیرہ کرنے کے لیے بہترین مقام فراہم کرتا ہے، کیونکہ یہ قطبوں کے قریب بعض علاقوں میں بہت سرد ہوتا ہے،اور شاذ و نادر ہی منفی321 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔ اس سے نمونوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کم توانائی اور کم انسانی مداخلت کی اجازت مل سکتی ہے۔
یقیناً چاند کی یہ کشتی بہت دور کی بات ہے۔ محققین نے نوٹ کیا کہ اس حوالے سے موجود کئی چیلنجوں میں خلائی نقل و حمل کے دوران نمونوں کو محفوظ رکھنا، بین الاقوامی تعاون، اور کائناتی تابکاری کے اثرات شامل ہیں۔ تاہم، ایک دن، چاند ہماری سب سے زیادہ خطرے سے دوچار انواع کا آخری گڑھ ہو سکتا ہے۔