وہ بغداد میں جنوری 1978 کے وسط کا ایک ناخوشگوار دن تھا جب ودیع حداد کو معمول کے کھانے کے بعد پیٹ میں شدید اینٹھن ہونے لگی۔ حداد فلسطینی تنظیم ”پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین“ (پی ایف ایل پی) کے سربراہ تھے۔ ان کی بھوک مٹ چکی تھی، ان کا وزن 25 پاؤنڈ سے بھی کم ہوگیا تھا، انہیں عراقی سرکاری ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں کے ڈاکٹروں نے ہیپاٹائٹس کی تشخیص کی۔ ڈاکٹرز نے اس کے بعد کہا کہ یہ بہت برے زکام کا معاملہ ہے، ان کیلئے طاقتور اینٹی بایوٹکس کا انتظام کیا گیا، حداد کا علاج بغداد کے بہترین ڈاکٹروں نے کیا لیکن ان کی حالت بہتر نہیں ہوئی۔
جلد ہی اب کے بال گرنے لگے، بخار مسلسل اور تیز تر ہوگیا، شک کی سوئی زہر کی طرف اشارہ کرتی تھی، لیکن کون سا زہر اور کیسے دیا گیا، ڈاکٹروں کو کچھ پتہ نہیں تھا۔
اس کے بعد فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنما یاسر عرفات نے ایک معاون سے مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس ”ستاسی“ (STASI) سے مدد لینے کو کہا۔ یہ وہ وقت تھا جب سوویت فلسطینی جنگجوؤں کی مدد کرتے تھے اور انہیں پاسپورٹ، پناہ گاہ، ہتھیار اور انٹیلی جنس فراہم کرتے تھے۔
جب عرفات کا معاون مشرقی جرمن خفیہ ادارے تک پہنچا تو حداد کو بغداد سے مشرقی برلن منتقل کر دیا گیا۔ انہیں ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں انٹیلی جنس اور خفیہ سروس کمیونٹی کے ارکان کا علاج کیا جاتا تھا۔ یہ 19 مارچ 1978 کا دن تھا۔
اب تک، حداد نے بغداد کے ہسپتال میں دو انتہائی تکلیف دہ مہینے گزارے تھے، بغیر کسی کو یہ پتہ چلے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
جب مشرقی برلن نے مداخلت کی تو عرفات نے امید ظاہر کی کہ نتائج قدرے واضح ہوں گے۔
قتل سے پہلے اسماعیل ہنیہ کی اسحاق ڈار سے ملاقات کی ویڈیو وائرل
بغداد سے ہوائی جہاز کے زریعے دوسرے ہسپتال منتقل کرنے کے دوران جب حداد کے مددگاروں نے ان کا سامان باندھا تو اس میں ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب بھی تھی۔
حداد جب برلن پہنچے تو وہ تقریباً موت کے منہ میں تھے۔
اکتالیس سالہ ودیع حداد کو مشرقی برلن کے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، انہیں کئی جگہوں پر لقوے کا سامنا تھا، ان کے دل کے اردگرد خون لیک ہوکر بہہ رہا تھا، یہاں تک کہ ان کی زبان، پھیپھڑوں کی جھلیوں، ٹانسلز اور پیشاب تک سے خون بہہ رہا تھا، ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد خطرناک حد تک گر گئی تھی۔
ہسپتال میں ڈاکٹروں کی طرف سے ان کے تمام ممکنہ ٹیسٹ کروائے گئے لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔
ڈاکٹروں کا قیاس تھا کہ انہیں یا تو چوہے مار زہر یا تھیلیم زہر دیا گیا ہے، کیونکہ ان کی اچانک موت نہیں ہوئی تھی۔ حداد کے معاملے میں ڈاکٹروں کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد کرنے کے لیے کوئی جسمانی ثبوت نہیں تھا، ایسا ہی بغداد میں ڈاکٹروں کے ساتھ بھی ہوا تھا۔
دس دن تک حداد بدترین اذیت میں رہے۔ مشرقی برلن کے ہسپتال میں ان کی چیخیں سنی جا سکتی تھیں، اور ڈاکٹروں کو انہیں دن رات بیہوش رکھنا پڑتا تھا۔ پھر 29 مارچ کو حداد کا انتقال ہوگیا۔
اس کے بعد حداد کا مکمل پوسٹ مارٹم ہوا۔ ستاسی کو حداد کی موت کی تفصیلات فرانزک ماہر پروفیسر اوٹو پروکوپ سے موصول ہوئیں۔
جن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ حداد کی موت ’دماغی خون بہہ جانے اور نمونیا بذریعہ پینمائیلوپیتھی‘ کی وجہ سے ہوئی، اور یہ کہ ’اس شبہ کی گنجائش ہے کہ کسی نے انہیں قتل کیا ہے‘۔
پی ایف ایل پی کے سربراہ ودیع حداد یا ابو ہانی نے 27 جون 1976 کو ایئر فرانس کی پرواز 139 کی ہائی جیکنگ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ پرواز تل ابیب سے پیرس کے راستے ایتھنز کے لیے روانہ ہوئی۔ ایتھنز میں طیارے میں 58 مسافر سوار ہوئے جن میں چار ہائی جیکرز بھی تھے۔
ان میں دو پی ایف ایل پی کے ممبران تھے اور دو جرمن انقلابی سیل کے کے افراد تھے۔
طیارے کو لیبیا میں بن غازی پہنچایا گیا، جہاں ہائی جیکروں کو برطانوی نژاد اسرائیلی شہری پیٹریشیا مارٹیل کو چھوڑنا پڑا، جس نے خود کو کاٹ کر زخمی کر لیا اور اسقاط حمل کا بہانہ کیا۔
مارٹیل باہر نکلنے کے بعد لندن چلی گئیں اور برطانوی خفیہ ایجنسی MI6 اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد نے ان سے معلومات حاصل کیں۔
یوگنڈا کے اینٹبی ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہونے سے قبل طیارہ بن غازی میں سات گھنٹے تک ایندھن بھرنے کے لیے موجود رہا۔
اینٹبی میں اسرائیل نے آپریشن تھنڈربولٹ کا آغاز کیا، لیفٹیننٹ کرنل یوناتن نیتن یاہو کی قیادت میں سیریت متکل (اسرائیل کے جنرل اسٹاف کی خصوصی جاسوسی یونٹ) کی 29 رکنی یونٹ، یرغمالیوں کو نکالنے کی انچارج تھی جو یرغمالیوں کو نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ تاہم، اس دوران اسرائیل کا لیفٹیننٹ کرنل نیتن یاہو اینٹبی آپرئیشن میں مارا گیا اور بعد میں آپریشن کا نام ’آپریشن یوناٹن‘ رکھ دیا گیا۔
موساد نے اس موت کو ہلکا نہیں لیا، اور ودیع حداد موساد کے لیے ایک ترجیح بن گیا۔
1974 میں اقوام متحدہ میں یاسر عرفات کی تقریر کو دنیا بھر میں پذیرائی اور ہمدردی ملی، لیکن موساد کی قتل کی فہرست میں حداد کا نام آگیا تھا اور موساد نے حداد کو ختم کرنے کے لیے کام شروع کردیا۔
اینٹبی پر کارروائی کو اٹھارہ ماہ ہو چکے تھے۔ اس دوران عبوری طور پر حداد بغداد، اور بیروت میں پرامن طریقے سے رہ رہے تھے۔
موساد قتل کیلئے کسی عرب دارالحکومت میں شور شرابہ اور پھیلاوا نہیں چاہتی تھی۔ لہذا، آتشیں ہتھیار کا امکان نہیں تھا۔ انہیں ایک ایسا طریقہ وضع کرنے کی ضرورت تھی جس سے کم سے کم شکوک پیدا ہوں۔
اب یا تو یہ موت قدرتی نظر آنی تھی، جیسے کسی بیماری نے ودیع حداد کی جان لی ہو یا کوئی حادثہ، جیسے کہ کہیں کار حادثے میں موت۔
عرب دارالحکومت میں ایک غلط آپریشن کے بعد گرفتاری کا خطرہ بہت زیادہ تھا۔ اسرائیلی ایسا نہیں چاہتے تھے۔
حداد کو مارنے کا کام ’ایجنٹ سیڈنیس‘ کو سونپا گیا، جسے حداد کے گھر اور دفتر دونوں تک کافی حد تک رسائی حاصل تھی۔
10 جنوری 1978 کو، اینٹبی کارروائی کے ڈیڑھ سال بعد، حداد کے ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب کو تبدیل کردیا گیا جس میں ان کی موت تھی۔ ٹوتھ پیسٹ کی اس ٹیوب میں تل ابیب کے جنوب مشرق میں موجود نیس زیونا میں واقع اسرائیل انسٹی ٹیوٹ فار بائیولوجیکل ریسرچ میں تیار کیا گیا ایک زہریلا مادہ تھا۔
اس انسٹی ٹیوٹ نے ایک ٹاکسن تیار کیا جو حداد کے منہ میں موجود جھلیوں میں گھس کر دانت صاف کرنے کے دوران خون میں داخل ہو سکتا تھا۔ یہ دھیرے دھیرے ایک بڑی سطح پر پہنچ کر حداد کے لیے مہلک ہو گیا۔
حداد کے قتل نے موساد کی لغت میں ایک نیا جملہ شامل کیا، ”کم نشان والے قتل“۔ یہ نشان اتنا کم تھا کہ حداد کی موت کی وجہ کو سامنے آںے میں تقریباً تین دہائیاں لگیں۔ اور اب بھی، اس کہانی کے دو ورژن ہیں، جو دو مصنفین نے دو مختلف کتابوں میں لکھے ہیں۔
پہلا ورژن آرون جے کلین کی کی کتاب“اسٹرائکنگ بیک“ میں ہے جس میں حداد کی موت کو زہر سے بھری چاکلیٹ سے منسوب کیا گیا۔ ان کے مطابق ایک ساتھی نے حداد کو ان کی پسندیدہ بیلجیئم چاکلیٹ کی پیشکش کی جو ناقابل شناخت زہر سے بھری ہوئی تھی۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد بہو اور بیٹے کا پیغام جاری
اس کا دوسرا اور تفصیلی ورژن 12 سال بعد آیا۔ 2018 کی کتاب ”رائز اینڈ کِل فرسٹ“ میں ، رونن برگمین ودیع حداد کے قتل کے بارے میں انتہائی تفصیل سے لکھتے ہیں۔ برگمین نے اپنی کتاب میں ایک باب حداد کے قتل کے لیے وقف کیا ہے: ”ٹوتھ پیسٹ میں موت“۔
2018 میں ٹائمز آف اسرائیل کے ساتھ ایک انٹرویو میں ، برگمین نے حداد کی موت کے بعد جو کچھ ہوا اس کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ستاسی نےعراقی انٹیلی جنس کو رپورٹیں بھیجیں اور ان سے کہا کہ آپ کو اپنے سائنسدانوں اور ان کے ٹوتھ پیسٹ کو دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ انہیں شک تھا کہ ٹوتھ پیسٹ میں زہر ملا تھا اور اس وقت سے عراقی انٹیلی جنس نے عراقی سائنسدانوں کو حکم دیا کہ وہ جب بھی عراق سے باہر نکلیں، اپنے ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ پھر بھی ان میں سے دو کو زہر دیا گیا تھا۔
بابل کا فلسفی تلمود کہتا ہے، ’اگر کوئی تمہیں مارنے آئے تو اُٹھ کر پہلے اُسے مار ڈالو‘۔
اسرائیل کی تخلیق کے بعد سے اور اسرائیل کی دنیا کی سب سے مہلک قاتل مشین، موساد کی تخلیق کے بعد سے، اسرائیل ایسا ہی کر رہا ہے اور تازہ ترین نشانہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ہیں۔