ایران کے شہر تہران میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی نمازجنازہ ادا کردی۔ تدفین جمعہ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوگی۔
واضح رہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں اسرائیلی حملے میں شہید کردیا گیا۔ حملے کی نوعیت تو سامنے نہ آسکی، لیکن عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ ہنیہ کی شہادت میزائل حملے میں ہوئی، ایرانی میڈیا کا کہنا ہے حملہ ایران کے باہر سے کیا گیا۔ دوسری جانب ایران نے اسرائیل کےخلاف جوابی کارروائی اور تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کیسے ہوئی؟ ایران کی سرزمین پر حماس کے سربراہ کو کیسے نشانہ بنایا گیا، اس معاملے پر ایرانی حکومت کی خاموشی نے کئے سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
اسماعیل ہنیہ کو اس وقت شہید کیا گیا جب وہ ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے تہران میں موجود تھے، اسماعیل ہنیہ شمالی تہران میں سابق فوجیوں کی رہائش گاہ پر مقیم تھے، تاہم ان کی قیام گاہ سے متعلق درست معلومات فراہم نہ کی جاسکیں۔
ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا کہ اسماعیل ہنیہ اور ان کے محافظ کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا، پھر ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ انہیں گائیڈڈ پروجیکٹائل سے نشانہ بنایا گیا، مگرابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ میزائلجیٹ طیارے سے داغا گیا یا ڈرون سے۔
حملے کے بعد کی کوئی تصویر ایران کے سرکاری میڈیا یا سوشل چینلز پر سامنے نہیں آئی۔
ایرانی رکن پارلیمنٹ حسین علی حاجی دلیگانی کا کہنا ہے کہ حملے میں دراندازوں کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اسرائیل نے غداروں کو ڈالر دے کر ملازمت پر رکھا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ عرب میڈیا کے مطابق اسماعیل ہنیہ پر رات دو بجے سوتے ہوئے حملہ کیا گیا، براہ راست ان پر ایک میزائل داغا گیا، حملے میں اسماعیل ہنیہ کا محافظ بھی جاں بحق ہوگیا۔
حماس نے اسماعیل ہنیہ شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا، جس میں تنظیم نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ پر حملے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، یہ ایک بزدلانہ کارروائی ہے جس کا بدلہ لیں گے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں اسماعیل ہنیہ کے 3 بیٹے شہید ہوگئے تھے۔
اسرائیل حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ سے کیوں خوفزدہ رہتا تھا؟
ایرانی پاسدران کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسماعیل ہنیہ اوران کے محافظ کو تہران میں ان کی رہائش گاہ پرنشانہ بنایا، واقعے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
ایران کا اسرائیل کےخلاف جوابی کارروائی کا اعلان
سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لینا ایران کا فرض ہے، اسرائیل نے اپنے لیے سخت سزا کی بنیاد فراہم کردی۔
نومنتخب صدر مسعود پیزشکیان نے اسماعیل ہنیہ کو شہید القدس کا خطاب دیا ہے۔ خیال رہے کہ امریکا کا کہنا ہے اسرائیل پرحملہ ہوا تو دفاع کریں گے۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ترجمان حماس خالد قدومی نے ’آج نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ سے دعا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو قبول فرمائے، اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے 79 لوگ شہید ہوچکے ہیں، شہدا میں اسماعیل ہنیہ کے 2 بیٹے بھی شامل ہیں۔
خالد قدومی نے کہا کہ ایک عزت دار اور خود مختار ملک میں حملہ کیا گیا، اسرائیل نے ایک مجرمانہ فعل کیا ہے جس کا جواب ضروری ہے، خود مختار ملک پر حملہ کیا گیا، دنیا کو دیکھنا چاہیئے کیا جواب دیتی ہے۔
ترجمان حماس کا مزید کہنا تھا کہ ایران ایک مسلمان ملک ہے، مسلم امہ کو منہ توڑ جواب دینا چاہیئے، اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آچکا ہے، ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں اپنا دفاع کر رہے ہیں، اسرائیل تمام سرخ لکیروں کو عبور کررہا ہے عالمی برادری کیا کرے گی، اسرائیل نے ایک عالمی لیڈرکاقتل کیاہے،اقوام متحدہ کوایکشن لینا چاہیئے، اسرائیل نے صرف اسماعیل ہانیہ نہیں بلکہ تمام مسلمانوں پر حملہ کردیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ 1962 میں غزہ کے شہر کے مغرب میں شطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے، انہوں نے 16 سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہنیہ سے شادی کی جن سے ان کے 13 بچے ہوئے جن میں 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں شامل ہیں۔
انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987 میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی پھر 2009 میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔
اسماعیل ہنیہ فلسطین کے سابق وزیراعظم، حماس کے سیاسی سربراہ اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیئرمین تھے، 2017 میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا، وہ 2023 سے قطر میں قیام پذیر تھے۔
اسماعیل ہنیہ 1988 میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی رکن کی حیثیت سے شامل تھے، 1997 میں وہ حماس کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین کے پرسنل سیکرٹری بن گئے، 1988 میں پہلے انتفادہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے 6 ماہ قید میں رکھا۔
1989 میں دوبارہ گرفتاری کے بعد 1992 میں اسماعیل ہنیہ کو لبنان ڈی پورٹ کیا گیا جس کے اگلے سال اوسلو معاہدے کے بعد اسماعیل ہنیہ کی غزہ واپسی ہوئی۔
2006 میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد اسماعیل ہنیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم مقرر کیا گیا، حماس فتح اختلافات کے باعث یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی اور اسماعیل ہنیہ ہی اس کے سربراہ تھے۔