وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی کا کہنا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ آئیں، بیٹھیں اور بات کریں، لیکن حکومت پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سرفراز بگٹی نے مظاہرین کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی پارلیمانی جماعت یا رکن اسمبلی مذاکرات میں کردار ادا کرسکتا ہے۔
وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے میڈیا نے اس مسئلے کو کس انداز اٹھایا ہے، شعبان سے اٹھائے جانے والوں کو کس نے اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہ رنگ نے لکھ دیا ہے وہ جلسہ جلوس سے پہلے اجازت لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم گوادر جلسہ گوادر کی بجائے تربت میں کریں، کوئٹہ میں جلسہ کیوں نہیں کیا گیا، اگست میں گوادر میں بڑا پروگرام ہونے جارہا ہے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ آئین کی بات کی جاتی ہے تو اس پر عمل بھی ہونا چاہیے، پرامن لوگ منہ کیوں چھپاتے ہیں ، پرامن گولیاں کیوں چلاتے ہیں، پاکستان کے خلاف منظم جنگ چلائی جارہی ہے، میں تیل چھڑنے کی بجائے انہیں مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں، کیا جتھوں کو اسمبلی چلانے کی اجازت دی جائے،کیا ریاست کو نقصان پہنچانے کی سازش ہورہی ہے، کیا میں پرامن لوگوں کی حفاظت نہیں کروں۔
انا کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگ سمجھ چکے ہیں ان کی ترقی پاکستان کے ساتھ ہے، ایک بلوچ پاکستان ہے، سوفی صد سجھمتاہوں ہم پرامن ہیں، گوادر کی بجائے جیونی اور تربت میں جلسہ کرتے ، ان کا مقصد ان تمام سرگرمیوں کو سپوتاژ کرنا ہے جس سے بلوچستان میں خوشحالی آئے۔
انہوں نے کہا کہ ہر بات ایجنسی پر ڈال جاتی ہے، کیا راء اور موساد کے ساتھ مل جائیں؟ سیکورٹی فورسز اور عوام کو آمنے سامنے لانے والے کون ہیں، کیا سی پیک کی سرگرمیوں اورترقی کو روک دیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں، جو اپوزیشن میں جانا چاہتے ہیں ان کو اختیار دیتے ہیں، بلوچی جرگہ لے کر جائیں، انہیں اکھٹا ہونے کا حق نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہدایت الرحمٰن سے معذرت خواہ ہوں ان کو اعتماد میں نہیں لیا، جس انداز سے تشدد کیا جارہا ہے اس پر اسمبلی کب جذباتی ہوگی، کیا جن گیارہ لوگوں کو اغوا کیا ہے اس کے بارے میں کسی نے بات کی؟
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان مزید تشدد کامتحمل نہیں ہوسکتا، کون سی حکومت چاہتی ہے کہ اپنے لوگوں سے دست وگربیاں ہو، بلوچستان کے خلاف انٹرنیشنلی سازشیں ہورہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے قتل وغارت کی اجازت نہیں دیں گے، حکومت کی طرف سے لاٹھی چلتی ہے تو شور ہوجاتا ہے، اس طرف سے جو کچھ ہورہا ہے اس پر سب خاموش ہیں، دوسری طرف سے 4 ہزار لوگوں کو مارا گیا ہے ، 16 ایف سی اہلکار زخمی ہیں، ایک ایف سی کے آفیسر کی آنکھ ضائع ہوچکی ہے۔
وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ ہم مذاکرات کرنے کی بات کرتے ہیں مگر جب ہم دعوت دیتے ہیں تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، ماہ رنگ کو بھی مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں اور اپوزیشن کو اختیار دیتا ہوں۔