پی ٹی آئی کے سینیر رہنما اور معروف قانون دان حامد خان نے کہا ہے کہ عمران خان کو اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر شیخ رشید اور فواد چوہدری نے مجبور کیا۔ فواد پلانٹیڈ آدمی تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن بدحواسی میں بیانات دے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ ان کے بارے میں زیادہ بات اس لیے نہیں کرسکتا کہ اُن سے بات چیت چل رہی ہے۔
نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں حامد خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی جیل میں ہیں اس لیے قیادت کا خلا پایا جاتا ہے۔ جو لوگ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرتے ہیں وہ باہر آکر ہدایات مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس حوالے سے ذاتی تشہیر کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کے بارے میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ پارٹی سے مخلص نہیں۔ اور کچھ لوگ محض اختلافات پیدا کرنےھ کے لیے بیانات دیتے ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ جو لوگ پارٹی کو نقصان پہنچاسکتے تھے یا پہنچارہے تھے انہیں بہت حد تک سائیڈ لائن کردیا گیا ہے۔ پتا چل چکا ہے شیر افضل مروت کسی اور مقصد کے تحت آیا تھا۔ اسے ذاتی تشہیر کا شوق تھا۔ اس کے بیانات سے پارٹی کو بہت نقصان پہنچا۔
سینیر قانون نے مزید کہا کہ مخصوص نشستوں کے مسئلے پر پسپا ہوکر حکومت نے فرسٹریشن میں پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے کی بات کی ہے۔ حکومت ٹربیونلز سے خوفزدہ ہے۔ پنجاب میں تو انکوائری کی ضرورت بھی نہیں۔ بیشتر سیٹوں پر فارم 45 گن لینے سے بہت ساری سیٹیں ہماری ثابت ہو رہیں گی۔
مسلم لیگ ن والوں کو اب یہ خوف لاحق ہے کہ اُن سے ہماری سیٹیں خالی کرالی جائیں گی۔ نواز شریف، شہباز شریف، مریم اور عون چوہدری بہت سے لوگ بُری طرح ہارے تھے۔ درست گنتی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
ایک سوال پر حامد خان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ 8 فروری کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو بہت خوش تھے اور کہا کہ قوم نے ان کی بات سن لی۔ جس نے پارٹی چھوڑی دی اُسے واپس نہیں لانا۔ جو خاموش رہا اُس کی واپسی پر غور کیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے پریس کانفرنس کی اور پارٹی بنائی وہ واپس نہیں آسکتے۔