وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کے خلاف نئی سازش کی گئی، ایسے منفی عناصر کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا، کسی کو کسی کے قتل کے فتویٰ کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ ملک میں مذہب کے نام پرخون خرابے کی کوشش کی جارہی ہے، ریاست کسی کے قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے شرانگیز گفتگو کی گئی ہے، کچھ لوگ بیرونی دنیا کے منفی مفادات کے ایجنڈے پر ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں واضح بیان دے چکی ہے مگر جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے، ہم کابینہ کی جانب سے سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ اگر خدا نخواستہ ریاست نے یہ کھلی چھوٹ دی تو ریاست کا شیرازہ بکھر جائے گا، سوشل میڈیا میں عوام کو قتل پر اکسانے کی کوشش کی جارہی ہے اور انتہا پسندانہ پوسٹس سوشل میڈیا پر لگائی جارہی ہے، آپ ﷺ پر ہمارا ایمان ہے کہ وہ رحمت اللعالمین تھے اور وہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے اور یہ رحمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا جب تک کائنات قائم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ایسے مذہب کے نام پر جو رحمت کا مذہب ہے اس پر ایسی گفتگو کی جائے تو اس سے زیادہ توہین مذہب کوئی نہیں، ریاست اس پر کارروائی کرے گی، کیونکہ یہ سب جھوٹ پر مبنی ہے۔
چیف جسٹس کو جان سے مارنے کی دھمکی پر ٹی ایل پی رہنما کیخلاف مقدمہ درج
وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کافی عرصے سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے، سب کو پتہ ہے کہ انہوں کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کے خلاف یہ ایک نئی سازش ہے، ایسے منفی عناصر کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا، عدلیہ میں ایک ایسی آواز کو خاموش کرنے کی جو حق اور سچ کی روایت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ریاست اس بات کی اجازت نہیں دے گا اور قانون پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا، ہمیں اس بات کا اعادہ کرنے کی بار بار ضرورت نہیں، ختم نبوتﷺ تو ہمارے ایمان کا احصہ ہے، اگر اس کا بار بار اعادہ کرنا پڑا تو سمجھ لیں کہ معاشرے میں کوئی کمی ضرور ہے جو اس کی حیثیت کو بار بار اجاگر کرنا پڑ رہا ہے، ایمان کا اظہار اعمال سے ظاہر ہونا چاہیئے، اس کا اظہار ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ آپ کی تقلید کریں، اسلام محبت کا پیغام ہے، اسلام کا وہ چہرہ دکھائیں جو محبت اور پیار کا چہرہ ہے، ایسا چہرہ نئی نسل اور دنیا کو نا دکھائیں جو ہمارے دین کو کمزور کرتا ہو، جو ہمارے دین کے بنیادی تعلیمات کے منافی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ریاست میں سسٹم ہوتا ہے، بے بنیاد الزام نہیں لگا سکتے، قانون میں یہ موجود ہے کہ اگر ایک الزام بے بنیاد لگایا ہے تو اس کی وہی سزا ہے جو اس الزام کے مرتکب فرد کو دی جاتی ہے، یہ بغیر کسی ابہام کے جو سازش کئی سالوں سے چیف جسٹس کے خلاف چل رہی ہے اور عدلیہ آئینی معاملات پر فیصلے دے رہی ہے تو اس میں دھمکی دینے کی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا، میں میں آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر خواجہ آصف نے مزید کہا کہ کسی گروہ کی مذہب، سیاست یا ذاتی مفادات کے نام پر ڈکٹیشن ریاست قبول نہیں کرے گی، ریاست قانون کے مطابق اس قسم کے غیر قانونی اقدامات، اس قسم کے فتوؤں کا جواب دے گی۔
بعد ازاں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عدلیہ کے سربراہ ہیں، عدلیہ اہم ریاستی ستون ہے، چیف جسٹس سے متعلق بیان پاکستان کے آئین ودین سے کھلی بغاوت ہے، یہ وہ طبقہ ہے جس کو 2018میں خاص مقصد کیلئے کھڑا کیا گیا تھا۔
احسن اقبال نے کہا کہ یہ وہ کام ہے جو اللہ نے روز قیامت کرنا ہے، جو شخص لوگوں کے ایمان پر فتوے جاری کرتا ہے وہ اللہ کے کام کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، پاکستان میں آئین ،عدالتیں اور قانون ہے، کسی شخص یا گروہ کو یہ اجازت نہیں کہ وہ کسی کے قتل کے فتوے جاری کرے ، سزا اور جزا کا ریاست میں اختیار صرف عدالت کے پاس ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے مزید کہا کہ پاکستان کے علما نے مل کر پیغام پاکستان کی صورت میں اس رویے کی مذمت کی تھی، تمام علما کا فتویٰ موجود ہے کہ دہشتگردی،خودکش حملوں اور فتوے بازی کا اسلام سے تعلق نہیں، اختیار صرف ریاستی اداروں کے پاس ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام ایک انسانی جان کی حرمت پر یقین رکھتا ہے، ایک انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنا ہے، یہاں اسلام کے نام پر گلی گلی ،محلے محلے لوگوں کے جذبات کو ابھارا گیا، سرگودھا، سوات اور جڑانوالہ اور دیگر شہروں میں لوگوں میں ہیجان پیدا کیا گیا، لوگوں سے ایسی حرکات کرائی جاتی ہیں جو پاکستان، دین اسلام کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی ہیں، ایسی حرکات سے ہمارے دشمن مذاق اڑاتے ہیں۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت اس طرح کے رویوں کو پنپنے کی اجازت نہیں دے گی، کسی گروہ یا شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کرے، چیف جسٹس سے متعلق معاملے پر قانون کارروائی کی جائے گی تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ نبی پاک ﷺ سے محبت ،ناموس اور ختم نبوت کی حفاظت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا نام لیکر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرے، ہمیں اس وقت غزہ کی طرف دیکھنا چاہیے، اس وقت مسلمانوں کو اتحاد کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے لیگی رہنما حنیف عباسی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو قتل کا فتویٰ دینے کا اختیار نہیں ، ہم نفرت پھیلانے والوں اور قتل کے فتوے دینے والوں کے راستے کی دیوار بنیں گے، وضاحتی بیان آگیا تو اس کی کیا گنجائش ہے کہ قتل کے فتوے جاری کیے جائیں، آپ کو فتوے دینے کا حق کس نے دیا ہے، واضح کردوں اب یہ مذمت سے آگے کا کام ہے، یہ رواج شروع ہوگیا کہ قتل کردو اور اتنی رقم لے لو، اب ان ہاتھوں کو روکا جائے گا۔
عطا تارڑ نے کہا کہ فتوے جاری کرنے کے پیچھے کھلے سیاسی مقاصد ہیں ؟ ان کا اپنا مکتبہ فکر کیا ہے؟ میرے بزرگوں نے جو کردار ادا کیا تاریخ میں اور وہ کاربند رہے اس معاملے پر، جسٹس قاضی فائز عیسی کے والد قائد اعظم کے ساتھی تھے، ان کے دادا نے بھی مسلمانوں کےلیے خدمات فراہم کیں، بغیر تحقیق کے، بغیر پریس ریلیز کو دیکھے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کو نافذ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، جو کیا گیا ہے اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہے، اس کی کوئی گنجائش نہیں ہمارے معاشرے میں کہ سیاسی مقاصد کے لیے ایسے اعلان کیے جائیں۔
عطا تارڑ نے کہا کہ کیا خالی آپ ہی دین اسلام کے علمبردار ہیں؟ کیا ہمارا حق نہیں اسلام پر بات کرنے کا؟ کیا یہ صرف آپ کا حق ہے؟ اس کی سخت مذمت ہم کرتے ہیں اور کسی کو قانون کو ہاتھ میں نہیں لینے دیے جائے گا، منصف اعلیٰ کے بارے میں ایسے الفاظ بولنا قانونی اور اخلاقا جرم ہے۔
اس موقع پر لیگی رہنما حنیف عباسی نے کہا کہ کی محبت سے وفا تو ہم تیرے ہیں،یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں، بچہ بچہ آپ ﷺ کے نام پر کٹ مرنے کو تیار ہوجاتا ہے، یہاں تو تاریخ بھری پڑی ہے کہ کیسے نوجوانوں نے آپﷺ کے ناموس پر جانیں قربان کی ہیں، پاکستان میں انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، پہلے بھی ہم سب یہ کوشش کرتے رہے کہ حکومت کو گرائیں اور اس کے لیےو جو آلہ کار وہ استعمال کریں اور وہی ہمارے گلے میں پڑ گیا، یہ تاریخ ہے ہماری، جن کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا وہ ہی غلط ثابت ہوئے۔
حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ جس نے یہ فتوی دیا اس کو یہ حق حاصل نہیں، یہ کون ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کے اوپر یہ فتوے لگائے؟ اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی، جتنے بھی رٹ نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ ایسے لوگوں کو گرفتار کریں اور کیفر کردار تک پہنچائیں، ہم چیف جسٹس کے ساتھ اس لیے نہیں کھڑے کہ وہ ہمارے لیے فیصلے دیں گے بلکہ ہم ہر اس شخص کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس پر ظلم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر چیف جسٹس پر الزام لگ سکتا ہے جس کی پوری تاریخ ہے تو پھر ہم پر بھی یہ الزام لگ سکتا ہے، ہمارے علمائے کرام سے ہم ملاقاتیں کریں گے اور اس سلسلے میں ہم پارلیمان میں وضاحتی بیان شاید وزیر اعظم خود دیں۔
ان کا کہنا تھا اسرائیل ازل سے ہمارا دشمن ہے آج دیکھیں کہ ایک ملک میں قرارداد پاس ہوتی ہے جس کے حق میں نیتن یاہو کو بلا کر سراہا جاتا ہے اور پھر اسی میںا یک پاکستانی سیاسی جماعت کے لیے قرارداد پاس ہوتی ہے، آج سوشل میڈیا کو استعمال کر کے چیف جسٹس کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس میں سب ذاتی مقاصد کے لیے شامل ہورہے ہیں، علمائے کرام ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے اور ہمارے مؤقف کی تائید کی گئی۔
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں بظاہر ایک مذہبی تنظیم سے تعلق رکھنے والے شخص کو خطرناک بیان دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس معاملے پر ظہیر الحسن شاہ کے خلاف لاہور کے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں ایس ایچ او حماد حسین کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔