امریکا میں قوانین کی بروقت توضیع اور نفاذ نہ ہونے کے باعث قانونی حیثیت کے حامل تارکینِ وطن کے ڈھائی لاکھ سے زائد بچوں کا مستقبل غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے۔
امریکی ایوانِ صدر وائٹ ہاؤس نے اس صورتِ حال کے لیے ری پبلکنز کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے کہا ہے کہ ری پبلکنز نے قوانین وضع کرنے مین تساہل سے کام لیا جس سے تعطل پیدا ہوا۔
امریکا میں قانونی طور پر سکومت پذیر تارکینِ وطن اپنے اُن بچوں کو عارضی ورک ویزا پر امریکا بلاتے رہے ہیں جو اُن کے آبائی ملک میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ بچے زیرِکفالت افراد کی درجہ بندی میں آتے ہیں۔ اِن میں ہر پاکستانیوں سمیت رنگ ارو نسل کے باشندے شامل ہیں تاہم بھارتی نژاد باشندوں کی تعداد زیادہ ہے۔
امریکی قوانین کے تحت امریکا میں پیدا نہ ہونے والے بچے قانونی تارکینِ وطن کا درجہ رکھنے والے اپنے والدین کے ساتھ 21 سال کی عمر تک رہ سکتے ہیں اور وہ بھی شادی شدہ نہ ہونے کی صورت میں۔ اس دوران وہ امریکا میں مستقل رہائش کا جازت نامہ (ایل پی آر) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
درخواست کے نمٹائے جانے کے عمل میں اگر وہ 21 سال کے ہوجائیں تو دوبارہ درخواست دے کر گرین کارڈ کے لیے طویل انتظار کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کا کہنا ہے کہ امریکا بھر میں موجود قانونی تارکینِ وطن کے بچوں کو قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے ری پبلکنز نے ضروری قانون سازی نہیں کی جس کے باعث معاملات میں تعطل پیدا ہوا ہے۔
امریکا کے 43 قانون سازوں نے مئی کے وسط میں بائیڈن انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد قانون سازی کرکے قانونی تارکینِ وطن کے بچوں کے مستقبل پر چھائے ہوئے غیریقینیت کے بادل ہٹائے۔
امریکا میں اِن بچوں کو ’ڈاکیومینٹیڈ ڈریمرز‘ کہا جاتا ہے۔ بھارت کے تارکینِ وطن کی اولاد سمیت کم و بیش 12 لاکھ بھارتی باشندے امریکی گرین کارڈ دیے جانے کے منتظر ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کی ری پبلکن پارٹی انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھتی ہے یعنی وہ قومی مفادات کے تحفظ کے لیے تارکینِ وطن کی تعداد گھٹانے کی وکالت کرتی ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن صدارتی امیدوار ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے سخت اقدامات کریں گے اور اگر فوج سے مدد لینا پڑے تو ایسا کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔