قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امورکے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ کئی اراکین پارلیمان کے پاس سرکاری رہائش گاہیں نہیں ہیں، وزیرپارلیمانی امور اعظم نزیر تارڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کام کے اعتبار سے سب سے کم تنخواہ اراکین پارلیمنٹ کی ہے جو تنخواہ ایک لاکھ 70 ہزار تک ہے جبکہ اراکین پارلیمنٹ اپنے بجلی اور گیس کے بلز خود دیتے ہیں۔
اجلاس میں وفاقی سیکرٹری پارلیمانی امور نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت پارلیمانی امور، قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کی مدد گار ہے، کسی بھی سرکاری ادارے یا آئینی ادارے میں قانون سازی سے متعلق سمری بھی وزارت سے بھجوائی جاتی ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ پارلیمانی سیکرٹریوں کےلیے 266 ملین روپے مختص ہیں، حکومت کی پارلیمنٹ کے فورم پر یقین دہانیوں پر عمل درآمد بھی یقینی بناتے ہیں۔
اجلاس کے دوران علی محمد خان نے راستوں کی بندش کا معاملہ اٹھایا جس پر وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آپ احتجاج کیا پوچھ کر کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ہمارا قانون سازی کا اختیار محدود ہے، مذہبی حوالوں سے کسی بھی قانون پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی جاتی ہے، پارلیمانی سیکرٹریوں کا تقرر وزیر اعظم کرتے ہیں، سینیٹ میں پارلیمانی سیکرٹری نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مشکل پیش آتی ہے، اس معاملے پر غور کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم شکایات سیل میں گزشتہ سال 36 ہزار شکایات آئی تھیں جن میں سے 22 ہزار سے زائد شکایات کو نمٹایا گیا، ہر ماہ 11 سو کے قریب عوامی شکایات آتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے، الیکشن کمیشن سے متعلقہ قانونی امور وزارتِ پارلیمانی امور کے پاس ہیں، پارلیمنٹ کے پاس مالی خودمختاری موجود ہے،پارلیمان میں ا سٹاف کی کمی نہیں،سیاسی مقاصد کے لئے ملازمین بھرتی کئے گئے، 96سینیٹرز کے لئے 1000 ملازمین موجود ہیں، بد قسمتی سے قانون سازی کی بجائے گلیاں نالیاں اور بجلی اراکین پارلیمنٹ کی ترجیح ہے، پارلیمنٹ کے نئے لاجز کا 80 فیصد کام مکمل ہے، پاڑاچنار کے واقعہ وفاقی وزیر کی وزیر داخلہ کے ساتھ مشاورت کی یقین دہانی، معاملہ وزیراعظم کے نوٹس میں بھی یہ لایا جائے گا ۔