سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کے حوالے سے بیان میں کہا ہے کہ جو لوگ عدالتی فیصلوں کو کچھ کا کچھ بناکر پیش کرتے ہیں، اپنی مرضی کے مفہوم کا جامہ پہناکر پروپیگنڈا کرتے ہیں وہ فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں۔
فاضل عدالت نے توضیحی بیان میں کہا کہ ملک کا آئین شہریوں کو اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے مگر اس مگر اس کی بھی حدود ہیں۔ یہ آزادی دین کے حوالے کسی کو گمراہ کرنے یا ملک کی سالمیت کے لیے خطرات پیدا کرنے کی خاطر بروئے کار نہیں لائی جاسکتی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ فساد فی الارض کی اسلام نے سختی سے ممانعت کی ہے۔ ملک کا آئین اور قوانین بھی کسی کو ہنگامہ آرائی اور دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں پنجاب حکومت کی طرف سے دائر کی جانے والی نظرِثانی درخواست منظور کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اورغیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی بھی انسان حقیقی اور مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا۔
فیصلے میں قرآن و حدیث کے حوالوں کے علاوہ جدید علما کے مشورے بھی شامل ہیں۔ 21 صفحات کا اردو میں لکھا ہوا فیصلہ پڑھ کر سناتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا تھا کہ تفصیلی فیصلہ جاری کیے جانے پر ہر طرح کا ابہام دور ہوجائے گا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ شریعت کورٹ کے مجیب الرحمٰن کے فیصلے کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ احمدیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کا ظہیر الدین فیصلہ بھی اہم ہے۔