دولت کی انتہائی غیر مساوی تقسیم کے خلاف فعال عالمی شہرت یافتہ غیر سرکاری تنظیم آکسفیم نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں امیر کے امیرتر اور غریب کے غریب تر ہوتے جانے کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ یہ رجحان اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اِس کے نتیجے میں معاشروں میں شکست و ریخت بڑھ رہی ہے۔
دنیا بھر میں ایک عشرے کے دوران انتہائی مالدار ایک فیصد افراد نے 42 ہزار ارب ڈالر کے اثاثے اپنی مٹھی میں لیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انتہائی محروم طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بڑھی ہےی اور معاشروں کی مجموعی پستی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ایک بیان میں آکسفیم نے کہا کہ دنیا بھر میں اگر معاشی ناہمواری کا گراف نیچے لانا ہے تو لازم ہے کہ ہر ملک اپنے ہاں وصول کیے جانے والے محصولات میں انتہائی مالدار طبقے کا حصہ کم از کم 8 فیصد رکھے۔ آکسفیم نے بیان میں کہا کہ ٹیکس سے بچنے کا رجحان ہر معاشرے میں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی انتہائی مالدار افراد زیادہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔
آکسفیم کا کہنا ہے کہ G20 کے رکن ممالک کو ٹیکس چوری کے خلاف سخت تر اقدمات کرنے چاہئیں تاکہ معاشی ناہمواری کو اطمینان بخش حد تک کم کرنے میں خاطر خواہ مدد مل سکے۔ G20 کا سربراہ اجلاس اِسی ہفتے برازیل کے دارالحکومت ریو ڈی جنیرو میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس کے ایجنڈے میں انتہائی مالدار طبقے سے زیادہ ٹیکس کی وصولی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
امریکا سمیت دنیا بھر میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ انتہائی مالدار افراد سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیے جائیں تاکہ معاشروں میں پائی جانے والی معاشی ناہمواری ختم ہو اور حکومتوں کو بہتر انداز سے کام کرنے کے لیے درکار فنڈز آسانی سے مل سکیں۔