آج دنیا بھر میں تیمر یا مینگرووز کے جنگلات کے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان قیمتی جنگلات کی اہمیت اور ان کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
تیمر کے جنگلات ساحلی علاقوں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی جڑیں نہایت مضبوطی سے زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جس کے باعث سمندری کٹاؤ رونما نہیں ہوتا اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔
ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے بڑے خطرے کے آگے بھی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔
سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔
ماہی گیر طالب کچھی کا کہنا ہے کہ مینگرووز کے جنگلات نہ صرف قدرتی لہروں کے تیز بہاؤ کو روکنے اور سیلاب کی حد کو محدود کرتے ہیں بلکہ مچھلیوں اور کیکڑوں کی افزائش کا کام بھی کرتےہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 35 ایسی مچھلیوں کی اقسام ہیں جو انہیں جنگلات میں جنم لیتے ہیں جبکہ سرد میں موسم میں سائبریا سے آنےوالے پرندے بھی انہیں مینگرووز کو اپنا مسکن بناتے ہیں یہیں وہ انڈے دیتے بچے پیدا کرتے ہیں اور چار ماہ بعد بچوں کو یہاں بڑا کرکے وہ یہاں سے چلے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ایشیا کا ساتواں اور دنیا کا تیرھواں بڑا مینگرووز کا جنگل ہے، ماحول میں موجود کاربن ڈائی اکسائیڈ جذب کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت صرف مینگرووز میں پائی جاتی ہے۔
تاہم ایک عرصے سے کراچی کو خوفناک سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچائے رکھنے والا یہ تمر اب تباہی کی زد میں ہے۔
پاکستان فشرفوک فورم کے صدر عبدل مجید موٹانی کہتے ہیں گھنے دکھنے والے مینگرووز کے ان جنگلات کو مافیا نے اندر سے کاٹ کاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ انڈسٹریز ایسی ہیں جن میں بوائلر کا استعمال ہوتا ہے تاہم گیس اور تیل مہنگا ہونے کے باعث اب وہاں آگ جلانے کیلئے تمر کی لکڑیوں کا استعمال ہورہا ہے یہ پورا مافیا ہے جو یہ کام کرتا ہے ۔
مجید موٹانی نے بتایا کہ تمر کی لکڑی ماچس ، فرنیچر سمیت دیگر سامان بنانے کے کام بھی آتا ہے، یہاں کے مقامی بھی لکڑیاں کاٹتے ہیں لیکن وہ ان درخت کا انتخاب کرتے ہیں خشک ہوچکے ہوتے یا پھر اندر سے کالے ہوجاتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ المیہ ہے کہ قوانین موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کو کارروائی عمل میں نہیں آتی جو باعث تشویش ہے ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی ملک کے اس خطے میں موجود ہے جنوب میں واقع ہے اور یہ مینگرووز جنوب سے آنے طوفانوں سے آدھے کراچی کو بچاتا ہے ۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق50 کی دہائی میں پاکستان میں مینگرووز 344000 ہیکٹرکے رقبے پر پھیلے ہوئےتھے، جو سکڑ کر اب 240000 ہیکٹرپر رہ گئے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے کوارڈینیٹر ونود کمار کہتے ہییں کہ مینگرووز کی کمی کی وجہ صرف اس کی کٹائی نہیں بلکہ دیگر وجوہات بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مینگرووز کی کمی میں موسمیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج ) کا اہم کردار ہے اس کے انڈس ڈیلٹا میں پانی کی کمی وجہ بھی ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے بچانے مینگرووز کی ماضی میں 8 اقسام ہوا کرتی تھیں تاہم اب صرف 4 اقسام موجود ہیں، یہ بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے۔