سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس میں سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر متفق ہوگئیں، تاہم کمیٹی نے ججز کی تعداد بڑھانے کا بل آئندہ اجلاس تک مؤخرکردیا۔ کمیٹی نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے عدالت عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات جبکہ وزارت قانون سے ہائی کورٹ ججز کی خالی آسامیوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹ قاٸمہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سینیٹر فاروق ناٸیک نے کہا کہ وزارت قانون وانصاف کے تفصیلات پیش کرنے پرسپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا معاملہ طے ہوگا، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کتنی ہوگی یہ کمیٹی طے کرے گی، سپریم کورٹ میں کیسز کا بوجھ بڑھا مگرججز وہی 17 ہیں۔
بل کی محرک سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ چار ایڈہاک ججز کی تجویز ابھی سامنے آئی، یہ ججز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے مقدمات کی تفصیل منگوا کر دیکھ لیں تو پھر بحث کرسکتے ہیں، کیا پتہ 24 ججز سپریم کورٹ میں درکار ہوں، اس پر سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے ججزکی تعداد بڑھانے کا بل آئندہ اجلاس تک موخرکردیا۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانا سادہ قانون سازی سے ممکن ہے، ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 19 نہیں بلکہ 21 ہونی چاہیے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک آئینی عدالت ہونا چاہیے، اپیلیٹ فورم ہائیکورٹ کے سطح تک محدود کر دیں، سپریم کورٹ میں جائزہ لے لیں کہ کتنے فل کورٹ یا لارجر بنچز بنائے گئے۔
انھوں نے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی نہیں یہ عدلیہ کی صلاحیت کا ایشو ہے ماتحت عدلیہ سے لے کر سپریم کورٹ تک ججز آزادی کو انجوائے کرتے ہیں، ٹائم لائن کو سب بھول گئے ہیں عدلیہ کی پوری دنیا میں ریٹنگ کم کیوں ہے؟، وقت ایسا ہے کہ آئینی عدالت کی طرف جانا چاہیے۔
وزیر قانون نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر پر سوالات اور انگلیاں اٹھائی گئیں، کہا گیا پریکٹس پروسیجر عدلیہ پر تجاویز ہے، سپریم کورٹ نے خود اس قانون کو تسلیم کرلیا یہ بات کہ آئینی ترمیم کے کیسز میں پہلے پانچ سینئر جج سن لیں اس نقطہ پر قانون میں ترمیم لے آئیں باقی ججز عام سائلین کے مقدمات سنیں۔
رکن کمیٹی سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، ہماری عدلیہ ہائی پروفائل کیسز میں الجھ گئی، ان کیسز کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کہ جن سے خبر بنے، کچھ ججز اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں جبکہ کچھ نہیں کر رہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان نے کہا کہ آئینی عدالت سپریم کورٹ ہے اور کوئی اور ہونی نہیں چاہیے، دنیا میں اگر آئینی عدالت الگ بنائی گئی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، فرانس اور جرمنی میں آئینی عدالتی متوازی نظام کے طور پر کام کرتے ہیں، بھارت میں ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی پر ایک سپریم کورٹ ہی ہے۔