اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے ملاقات کی۔ جس کے بعد انھوں نے بتایا کہ عمران خان نے بنوں واقعے کے بعد صوبے میں امن و امان کے قیام کیلئے اقدامات کی ہدایت کی۔
ذرائع کے مطابق بیرسٹرسیف نے سابق وزیر اعظم کو بنوں واقعہ اور بعد کی صورتحال سے آگاہ کیا، عمران خان نے بنوں واقعے کی انکوائری کرانے کے اقدام کو سراہا اور انھوں نے صوبے میں امن و امان کے قیام کیلئے ممکنہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔
اس حوالے سے ذرائع نے مزید بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے بیرسٹرسیف سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بنوں واقعہ سنجیدہ مسئلہ ہے، ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں۔
ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ عوام کو یقین دلایا جائے کہ کے پی حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
بنوں جرگہ کے مطالبات پر عمل درآمد شروع، 8 افراد گرفتار
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں 19 جولائی کو تاجر برادری نے سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کے ہمراہ شہر میں امن و امان کے قیام کے لیے احتجاج کیا تھا، اس موقع پر ناخوشگوار بھی ہوا تھا، جس سے متعلق بعد میں صوبائی محکمہ داخلہ نے بتایا تھا کہ
احتجاج پریٹی گیٹ پر پُرامن طریقے سے ختم ہو گیا تھا تاہم بعد میں شرکاء ، اسپورٹس کمپلیکس کی طرف گئے اور وہاں کچھ شرپسندوں نے سکیورٹی فورسز کے ڈپو پر پتھراؤ کیا اور چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ بھی کی گئی۔
صوبائی محکمہ داخلہ کا کہنا تھا کہ علاقے میں تعینات پولیس اہلکاروں نے حالات پر قابو پانے اور مظاہرین کو حساس علاقے سے باہر نکالنے کی کوشش کی اور اس دوران ایک شخص ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے تھے۔
پیر کو اس معاملے پر پاکستانی فوج کے ترجمان نے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنوں کینٹ پر حملے کے اگلے ہی دن بنوں میں لوگوں نے یہ کہتے ہوئے مارچ کیا کہ وہ امن چاہتے ہیں جبکہ کچھ مسلح اہلکار بھی امن مارچ کا حصہ تھے۔
مارچ کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مظاہرے میں شریک لوگوں نے ایک زیر تعمیر دیوار توڑ دی تھی جبکہ انہوں نے ایک سپلائی ڈپو کو بھی لوٹ لیا تھا، ”کچھ مسلح افراد نے فائرنگ کی جس سے جانی نقصان ہوا، بنوں میں فوج کے جوانوں نے ایس او پی کے مطابق جوابی کارروائی کی، اسی طرح لوگوں نے یہ سوالات بھی اٹھائے کہ فوج نے 9 مئی کو فائرنگ کیوں نہیں کی۔“
فوج کے ایس او پی کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ’انارکسٹ گروپ‘ کسی فوجی تنصیب کے قریب پہنچتا ہے تو اسے پہلے وارننگ دی جاتی ہے اور پھر اس سے نمٹا جاتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ “ہجوم کو کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے، فوج کا نہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ لوگ یقینی طور پر اپنا امن مارچ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بنوں واقعے کی فوٹیج دکھائی اور کہا کہ مسلح افراد کو دیکھا جا سکتا ہے، انہوں نے زور دیا کہ “دہشت گردوں کے خلاف مظاہرے کریں، جیسے ہی یہ واقعہ ہوا، سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا۔ “یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈیجیٹل دہشت گرد کس طرح زمین پر دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں۔