سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ خط لکھنے والے چھ ججز میں سے پانچ کو میں نے تلاش کر کے جج بنوایا، اطہر من اللہ نے 9 اپریل کی رات عدالت کھولنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوں۔
امریکہ میں نیویارک بار سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ میموگیٹ کا معاملہ ایسا نہیں تھا جسے سپریم کورٹ اٹھاتی، منتخب وزیراعظم کوعہدے سے ہٹانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر وزیراعظم کوعہدے سے ہٹاناغلط تھا کیونکہ صدر آصف زرداری کو آئینی استثنیٰ حاصل تھا۔
امریکا کا پی ٹی آئی کے دفاتر پر چھاپوں اور رہنماؤں کی گرفتاری پر اظہارِ تشویش
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جج جانتا ہے کہ اسے اپنے فیصلوں پر کیسے عمل کروانا ہے، ججز کو فیصلوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جاتا ہے، میرے خلاف بدترین پروپیگنڈا کیا گیا، میرے بچوں کی تصویریں اور پرسنل ڈیٹا لیک کیا گیا لیکن چیلنجز جج کے لیے ٹیسٹ ہیں، جج کو تنقید سے نہیں ڈرنا چاہیئے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نو اپریل کی رات عدالت کھولنے کے فیصلے کا بھی دفاع کیا اور کہا کہ ایک ٹی وی چینل نے ایسا ماحول بنایا گیا جیسے مارشل لاء لگنے والا ہے، میں چاہتا ہوں کہ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کاش عدالتیں 5 جولائی کو بھی کھلی ہوتیں جب جنرل ضیاء نے وزیراعظم کو ہٹایا تھا، کاش عدالتیں 12 اکتوبر 1999 کو بھی کھلی ہوتیں جب مشرف نے وزیراعظم کو باہر پھینکا، اگر عمران خان کو ہٹانے کی کوشش کی ہوتی تو یہ بھی امتحان ہوتا، یہ امتحان اسلام آبادہائیکورٹ کا ہوتا کہ وہ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہوتی یا نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جس دن میں نے عہدہ سنبھالا اُس کے اگلے روز ایک سرکلر جاری کیا، وہ سرکلر ریکارڈ کا حصہ ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ ایک آئینی عدالت ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ 24 گھنٹے کھلی رہے۔ اب اُس رات کیا ہوا، میں گھر میں تھا، مجھے بتایا گیا ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں لوگ پٹیشن فائل کرنا چاہتے ہیں، پھر اُنہوں نے مجھے بتایا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون پٹیشن فائل کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان کا اعترافی بیان معافی کی جانب قدم ہے، خواجہ آصف
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسٹاف کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاکر پٹیشن لے آئے، جب میں نے وہ پٹیشن دیکھی تو وہ بالکل مضحکہ خیز تھیں، میں نے حکم جاری نہیں کیا، ایک سیاسی بیانیہ بنا دیا کہ عدالتیں کیوں کھل گئیں، میں آپ کو بتاتا ہوں، اُس وقت ٹی وی پر کیا کہا جا رہا تھا، اُنہوں نے ایسی صورتحال پیدا کر دی جیسے مارشل لاء لگ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہنی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وقت بتائے گا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو جن چھ ججز نے نے خط لکھا ان میں سے پانچ میں منتخب کئے اور لگائے تھے۔