وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے صنم جاوید کی بریت سے متعلق ڈیوٹی مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل واپس لے لی جبکہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹادی۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج افضل مجوکا نے صنم جاوید کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کے خلاف ایف آئی اے کی اپیل پر سماعت کی جبکہ صنم جاوید اپنے وکلاء کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
عمران خان نے پولی گرافک، وائس میچنگ اور فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ دینے سے انکار کردیا
صنم جاوید نے جج افضل مجوکا سے مکالمہ کیا کہ عدت کیس میں آپ نے احسان کیا، آپ کا شکریہ، جس پر جج افضل مجوکا کا کہنا تھا کہ میں نے انصاف کیا، کسی پر احسان نہیں کیا۔
جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ وکلا نے دلائل دیے اور میں نے قانون کے مطابق فیصلہ کیا۔
صنم جاوید کا مقدمہ ڈسچارج کرنےکا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج
ایف آئی اے پراسیکیوٹر شیخ عامر عدالت میں پیش ہوئے، ایف آئی اے نے ڈیوٹی مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل واپس لے لی جبکہ عدالت نے اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
یاد رہے کہ 14 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما صنم جاوید کو ڈسچارج کر دیا تھا۔
اپنے تحریری فیصلے میں عدالت نے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کارکن صنم جاوید کو ایف آئی اے کیس سے ڈسچارج کیا جاتا ہے، مقدمے میں الزام ہے کہ صنم جاوید نے ٹوئٹ کے ذریعے ریاستی اداروں بشمول فوج کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلائیں، الزام ہے کہ صنم جاوید نے ٹوئٹ کے ذریعے ریاست مخالف بیانیے کو فروغ دیا، یہ الزام ہے کہ صنم جاوید نے ٹوئٹ کے ذریعے عام عوام کو تشدد اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے اکسایا۔
فیصلے کے مطابق ایف آئی آر میں صنم جاوید کی جانب سے کیے گئے ٹوئٹس کے اوقات اور تاریخ درج نہیں، صنم جاوید کے ٹوئٹ نے کتنے افراد کو ریاست مخالف سرگرمیوں پر اکسایا؟ ریکارڈ میں کچھ موجود نہیں، یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ صنم جاوید نے 10 مئی 2023 کے بعد اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ استعمال کیا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق صنم جاوید کا موبائل فون تو پولیس کے قبضے میں تھا، صنم جاوید 10 مئی 2023 سے قبل ہی ٹوئٹ کر سکتی تھیں کیونکہ اس کے بعد وہ پولیس حراست میں تھیں۔
عدالت کا صنم جاوید کو مکمل طور پر خاموشی اختیار کرنے کا حکم، گھر جانے کی اجازت
گرفتاری غیرقانونی قرار، صنم جاوید کو مزید کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کیا جائے گا، اٹارنی جنرل
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ ایف آئی اے سائبر کرائم کے سب انسپکٹر شیہروز ریاض ہیں، ریکارڈ میں شہروز ریاض کو شکایت درج کرانے کے لتے ریاستی اداروں یا پاک فوج سے اجازت ملنے کا ذکر نہیں، شکایت کنندہ کا تعلق پاک فوج سے نہیں تھا، لہذا ان کو مقدمہ درج کرانے کا اختیار نہیں تھا، ایف آئی اے کی جانب سے صنم جاوید کے 6 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جاتی ہے، صنم جاوید کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جاتا ہے۔
ایف آئی اے نے صنم جاوید کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کے خلاف اپیل دائر کر دی تھی۔