مسلم لیگ (ن) کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے بھی مخصوص نشتوں کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، درخواست میں میں 12 جولائی کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کے 80 ارکان میں سے کوئی عدالت کے سامنے نہیں آیا تحریک انصاف کو بن مانگے نشستیں دی گئیں۔
پیپلزپارٹی نے 12 جولائی کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر سپریم کورٹ میں دائر کر دی، سپریم کورٹ میں پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک نے درخواست دائر کی۔
درخواست میں سنی اتحاد کونسل، الیکشن کمیشن، مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم سمیت دیگرکوفریق بنایا گیا ہے۔
نظرثانی درخواست میں مخصوص نشتوں کا سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے۔
پیپلز پارٹی نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کے معاملے پر باضابطہ نوٹس نہیں دیا، سپریم کورٹ کا آرڈر اصل تنازعہ پر مکمل خاموش ہے، عدالت کا 12 جولائی کا آرڈرآئین کی تشریح کے طے شدہ اصول کے منافی ہے، عدالتی فائینڈنگ سنی اتحاد کونسل و فریقین کی گزارشات کے برعکس ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 51 اور سیکشن 104 کو کالعدم نہیں کیا، سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں، تحریک انصاف کسی فورم پر پارٹی نہیں تھی عدالتی فائینڈنگ سنی اتحاد کونسل و فریقین کی گزارشات سے برعکس ہے، تحریک انصاف کو بن مانگے نشستیں دی گئیں مسلم لیگ ن پہلے ہی مخصوص نشتوں فیصلہ پر نظرثانی دائر کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ 15 جولائی 2022 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
مسلم لیگ (ن) نے 12 جولائی کے فیصلے پر حکم امتناع کی بھی استدعا کی تھی، درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پارلیمانی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔
نظر ثانی درخواست کو جلد مقرر کرنے کی بھی استدعا کی گئی ، مزید کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ 12 جولائی کے فیصلے پر نظر ثانی کرے، سپریم کورٹ 12 جولائی کے فیصلے کو واپس لے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ کیس کے حتمی فیصلے تک سپریم کورٹ فیصلے پر حکم امتناع دیا جائے۔
استدعا کی گئی تھی کہ مخصوص نشستوں کی پی ٹی آئی کو الاٹمنٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے، مؤقف اپنایا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے حصول کی استدعا ہی نہیں کی تھی۔
درخواست میں مزید مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئین اور واضح ہے، آزاد امیدواروں کی شمولیت تین دن میں ہی ہوسکتی، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر عدالت نے فریقین کے دلائل بھی نہیں سنے، سپریم کورٹ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
واضح رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے بتایا کہ فیصلہ 8/5 کے تناسب سے دیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلہ دیا۔
12 جولائی کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر نہ کرنا ناانصافی ہوگی، چیف جسٹس
جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواستوں کی مخالفت کی۔
6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مخصوص نشستوں کا کیس: ن لیگ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کردی
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔