بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں ’فریڈم فائٹرز‘ کی اولاد کے لیے 30 فیصد کوٹے کے خلاف احتجاج میں مزید تیزی آگئی ہے، طلبا نے مطالبات کی منظوری کے لیے حکومت کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا اور ساتھ ہی پرامن مظاہرین پر تشدد کے لیے وزیراعظم حسینہ واجد سے معافی کا مطالبہ بھی کردیا۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ماہِ رواں کے دوران ہزاروں طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کے خلاف سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے 2018 میں ختم کیا جانے والا کوٹہ بحال کردیا تھا۔ جب حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اُس نے 13 جولائی کو کوٹے کی بحالی روک دی تھی۔
ابتک ہونے والے متعدد پرتشدد واقعات کے نتیجے میں 163 افراد جاں بحق اور 500 سے زائد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ جمعے سے ملک بھر میں کرفیو نافذ اور انٹرنیٹ کی بندش برقرار ہے۔
طلبا مظاہرین نے حکومت سے انٹرنیٹ اور جامعات کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم حسینہ واجد نے صورتحال بہتر ہونے تک کرفیو ہٹانے سے انکارکردیا اور پُرتشدد مظاہروں کا ذمہ دار اپوزیشن جماعتوں کو قرار دیدیا۔
انہوں نے کہا کہ صورتحال بہتر ہوجائے گی تو کرفیو ہٹالیں گے۔ واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں بھارت سے تعلقات گہرے ہوئے ہیں جس پر بنگلہ دیشیوں کی اکثریت نالاں ہے۔ ہر معاملے میں بھارت کے آگے جھکنے کی شیخ حسینہ کی پالیسی نے عام بنگلہ دیشیوں کے دلوں میں شدید نفرت بھردی ہے۔ معاشی مشکلات کا حل تلاش کرنے کے بجائے ایک عشرے سے مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور افلاس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔
شیخ حسینہ واجد نے مسلم دنیا بالخصوص پاکستان سے روابط بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ بنگلہ دیش کے ہزاروں گھرانے منقسم ہیں یعنی ان کے لوگ پاکستان میں بھی رہتے ہیں۔ پاکستان سے کشیدہ تعلقات کے ہاتھوں ان ہزاروں گھرانوں کو بھی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ افغانستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی فضا تیار کی گئی ہے۔
مہنگائی، کرپشن اور افلاس کی چکی میں پسنے والے بنگلہ دیشیوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کوئی معقول موقع درکار تھا۔ طلبہ تحریک نے وہ بھرپور موقع فراہم کردیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کوٹہ سسٹم کے بارے میں سپریم کورٹ کے واضح اعلان اور یقین دہانی کے باوجود عوام سڑکوں سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بیشتر مقامات پر طلبہ کی قیادت میں عوام نے فوج کا سامنا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ فوج کو حکم دیا جاچکا ہے کہ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر آنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے مگر فوج اور نیم فوجی دستوں نے اب تک اس حکم کی تعمیل نہیں۔ چند ایک مقامات پر انتہائی نوعیت کی صورتِ حال پیدا ہونے ہی پر پولیس اور فوج نے گولی چلائی ہے۔