بھارت کی سپریم کورٹ نے کنور یاترا کے دوران اتر پردیش کے دکانداروں کے لیے مالکان اور ملازمین کے نام دکان کے باہر نمایاں طور پر لکھنے کے ریاستی حکومت کے فیصلے کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے اُس پر عمل روک دیا ہے۔ فاضل عدالت نے 3 ریاستوں کو اس سلسلے میں نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔
عبوری رولنگ میں سپریم کورٹ نے کہا کہ اتر پردیش میں دکان داروں کو کنور یاترا کے روٹ پر واقع اپنی دکانوں پر وہ چیزیں رکھنی چاہئیں جو وہ عام طور پر رکھتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے انہیں دکان کے باہر اپنے نام لکھ کر لگانے کی ضرورت نہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ درخواستوں کے جواب میں جاری کیا ہے۔ درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ اس نوعیت کے احکام کا مقصد شناخت کی بنیاد پر لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کھڑا کرنا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ کنور یاترا کے روٹس پر واقع دکانوں کے مالکان اپنے ناموں کے بجائے کھانے پینے کی وہ اشیا نمایاں طور پر پیش کریں گے جو وہ عام طور پر پیش کرتے ہی ہیں۔
جسٹس رشی کیش رائے اور جسٹس ایس وی این بھٹی پر مشتمل بینچ نے اتر پردیش، اترا کھنڈ اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کو نوٹس بھی جاری کیے جنہیں نیم پلیٹ آرڈر کا نام دیا گیا ہے۔ ان تینوں ریاستوں کی حکومتوں کی طرف سے دکان داروں کو اپنے نام ظاہر کرنے کا پابند کرنے احکام کے خلاف این جی او دی ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سول رائٹس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
سینیر ایڈووکیٹ ابھیشیک منو سِنگھوی نے عدالت کے روبرو کہا کہ یہ حکم نامہ قانون کی کسی اتھارٹی، کے بغیر جاری کیا گیا تھا اور اِسے کیموفلیج ہی کہا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر کسی کو الگ تھلگ کرنا معاشی قتلِ عام ہی کی ایک شکل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی بھی ریسٹورنٹ میں اس بنیاد پر جاتے ہیں کہ وہ کیسا کھانا پیش کرتا ہے اور کتنے پیسے چارج کرتا ہے نہ کہ اس بنیاد پر کہ اس کا مالک کون ہے۔ آئین میں ایسی کسی بھی حرکت کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایڈووکیٹ سنگھوی کا کہنا تھا کہ کنور یاترا عشروں سے ہو رہی ہے اور اس میں ہر مذہب کے لوگ اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔