وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ملک میں بننے والے غیر جمہوری سیٹ اپ انتخابات کا پروڈکٹ نہیں ہوتے، بے یقینی کے حالات میں نئی سیاسی جماعتیں منہ دکھائی کی بھرمار کرتی ہیں، قبلہ رخ پنڈی کیطرف ہوتا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ”ایکس“ پر ٹوئٹ میں خواجہ آصف نے لکھا کہ ’آج کل بہت پریس کانفرنسیں اور ٹی وی شوز ہو رہے ہیں۔ وطن عزیز کی سیاست نے 75 سال میں بے شمار حادثات کو جنم دیا اور ان حادثات کے نتیجے میں غیر جمہوری سیٹ اپ بنتے رہے جو انتخابات کا پروڈکٹ نہیں ھوتے‘۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے خواجہ آصف نے مزید لکھا کہ ’کبھی وہ بظاہر انتخابات کے انعقاد کے لئے ہوتے اور کبھی وہ غیر معینہ مدت کے لئے لمبے ہو جاتے ہیں۔ ان حادثاتی حکومتی سیٹ اپ نے سیاستدانوں ، ٹیکنوکریٹس اور بزنس مین کی ایسی نسل کو جنم دیا جو ہر وقت کسی حادثے کے انتظار میں شیروانی سلوا کے تیار بیٹھے ھوتے ہیں‘۔
وزیر دفاع نے لکھا کہ ’جب حالات میں بے یقینی ہوتی ہے۔ وہ نئی سیاسی جماعتیں، پریس کانفرنسیں ، ٹی وی پر منہ دکھائی کی بھرمار شروع کر دیتی ہیں۔ قبلہ رخ پنڈی کیطرف کر لیتے ہیں‘۔
اس سے قبل سیالکوٹ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اداروں کے ٹکراؤ کی کیفیت موجود ہے، عدلیہ اپنی تاریخ درست کرے، عدلیہ کی ذمہ داری قانون کی تشریح کرنا ہے قانون سازی کرنا نہیں ہے، فیصلے سیاسی نہیں بلکہ آئینی اور قانونی ہونے چاہئیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ججز عدالتوں میں بیٹھ کر جو سیاسی ریمارکس دیتے ہیں اس کی آمیزش نہیں ہونی چاہیے، عدلیہ کے اتنے سیاسی فیصلے ہیں کہ گنتی ختم ہو جاتی ہے، جسٹس منیر والا فیصلہ بھی سیاسی تھا اور بھٹو صاحب والا بھی۔‘
بنوں میں فائرنگ پی ٹی آئی کے لوگوں نے کی، جس سے بھگڈر مچی، وفاقی حکومت
سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ موجودہ فیصلے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے آئینی خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔
خواجہ آصف نے عدلیہ پر چڑھائی کردی، سنگین الزامات
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں استحکام لانا صرف سیاستدانوں کی ذمہ داری نہیں، اس میں عدلیہ، میڈیا اور بیورو کریسی بھی ہے، اگر آئینی خرابی پیدا ہوئی تو ملکی معیشت اور سیاست کے لئے ٹھیک نہیں ہو گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’عدلیہ کو اپنا وجود بحال کرنا چاہیے، ان کی چپکلش کے افسانوں کا ذکر گلی محلوں میں ہو رہا ہے۔‘
جرمنی میں پاکستانی قونصل خانے پر افغان باشندوں کا دھاوا، پاکستان کا برلن سے احتجاج
جرمنی میں پاکستانی سفارتی مشن پر افغان شہریوں کے دھاوا بولنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ افغان باشندے احسان فراموش ہیں، ہم نے ان کے لیے روس سے جنگ لڑی، 35 سال سے ہم دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس وقت چالیس سے پچاس لاکھ افغانوں کی میزبانی کر رہے ہیں، کیا جرمنی واقع کے بعد میزبانی بنتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ جو افغان باشندے قانونی طور پر دو، تین نسلوں سے ملک میں مقیم ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں، لیکن بارڈر پر آنے جانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔