امریکا میں انتخابی دوڑ غیر معمولی مراحل سے گزر رہی ہے۔ صدر جو بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے امکان نے معاملات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے مشکلات بڑھتی ہی جارہی ہیں۔
ڈیموکریٹس کی اکثریت نے نائب صدر 55 سالہ کملا ہیرس کو بہترین صدارتی امیدوار قرار دے دیا۔ سرکردہ ڈیموکریٹک رہنماؤں نے دو ہفتوں کے دوران صدر بائیڈن سے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ اب وہ انتخابی دوڑ سے الگ ہوجائیں تاکہ ڈیموکریٹک پارٹی اپنے انتخابی اسٹیکز کو کسی حد تک بچاسکے۔
اب مزید 12 نامور ڈیموکریٹس نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی ضد چھوڑ دیں۔ ان ڈیموکریٹس کی سربراہی میں امریکی ایوانِ صدر کے باہر ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے نعرے لگاتے ہوئے صدر بائیڈن سے کہا کہ صدارتی امیدوار بننے کے مقابلے میں ملک کو ترجیح دو۔
سینیٹر کرس کونز کا کہنا ہے کہ اب صدر بائیڈن نے انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے یہ کہنا بھی شروع کردیا ہے کہ کملا ہیرس صر بننے کی اہل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے مشاورت بھی کی ہے۔
واضح رہے کہ ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلا صدارتی مباحثہ ہارنے کے بعد صدر بائیڈن کو شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تب بھی انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے کیمپ ڈیوڈ میں مشاورت کی تھی اور انہوں نے صدر بائیڈن پر زور دیا تھا کہ وہ ڈٹے رہیں اور انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کا خیال ذہن سے نکال دیں۔ اب معاملات بالکل بدل چکے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ حالیہ قاتلانہ حملے کے بعد انہیں قوم کی ہمدردی حاصل ہے۔ زخمی ہوکر وہ مزید مضبوط ہوگئے ہیں۔ اُن کے لہجے کا جوش و خروش بڑھ گیا ہے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی کی پوزیشن مزید کمزور ہوگئی ہے۔ اب اگر صدر بائیڈن انتخابی دوڑ سے الگ ہو بھی جائیں تو ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے اس کھیل میں واپس آنا آسان نہ ہوگا۔