جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا ہے کہ نئے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے پی اسمبلی تحلیل کرنے کو تیار ہے۔ نئے انتخابات اور اصل عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت ہی مسائل کا حل ہے۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام لازمی ہے، ملک اب مزید کسی ایڈونچر یا مارشل لاء کا متحمل نہیں ہوسکے گا۔
اسلام آباد میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ٹی آئی شفاف الیکشن کیلئے اسمبلیوں سے استعفے دینے کیلئے آمادہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ جے یو آئی نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے کامران مرتضیٰ کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے۔ کمیٹی میں مولانا لطف الرحمان، فضل غفور، اسلم غوری اور مولانا امجد شامل ہیں۔ کمیٹی پی ٹی آئی سے مشاورت سے حکمت عملی طے کرے گی۔
پی پی اور ن لیگ دونوں فارم 47 کی پیداوار ہیں، عمران خان، مذاکرات کا امکان مسترد
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں سے اختلاف رائے ہے، پی ٹی آئی سے تلخیاں تھیں، پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے جارہے ہیں، بانی تحریک انصاف عمران خان سمیت سیاستدانوں پر مقدمات نہیں بننے چاہیئں۔
ملک کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا، فیصلے دینے والوں کو اب بھی سوچنا ہوگا، نواز شریف
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ فوج الیکشن سے لاتعلق ہوجائے سب ٹھیک ہوجائے گا، پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں، نگران سیٹ اپ کے تصور کو ختم کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بھی حقیقی مینڈیٹ نہیں ہے، ن لیگ اور پیپلزپارٹی بے بس ہیں، خیرخواہی میں کہا تھا کہ ن لیگ ، پیپلزپارٹی حکومت نہ لے، دونوں کو حکومت کی ذمہ داری راس نہیں آرہی ہے۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کا 26 جولائی کو ملک بھر میں احتجاج کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ مارشل لاء اور ایمرجنسی سے اب کام نہیں چلے گا، حالات اور اختیارات اب ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، اسٹبلشمنٹ اپنی پالیسی پر ردوبدل کرے ایسے ملک نہیں چلے گا، بنگال کی طرح اب دو صوبوں کو ملک سے الگ کرنے کے حالات پیدا کیے جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جس راستے پر یہ چل رہے ہیں وہاں منزل نہیں ہے، ان کے پاس سیاسی معاملات طے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، یہ اداروں اور پارلیمنٹ کو لونڈی، عوامی نمائندوں کو ملازم بنانا چاہتے ہیں، آپ چاہتے ہیں ایمرجنسی لگائیں مرضی کی جماعتیں پارلیمنٹ بنائیں، یہ اجازت نہیں دیں گے، جے یو آئی عوام اور امن کے ساتھ ہے، فسادیوں سے ہم نمٹ لیں گے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام ہے جس کی وجہ سے امن و امان خراب ہے، قوم 2001 سے امن کی تلاش میں ہے، اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے سیاسی عدم استحکام سے ان کو مواقع ملتا ہے، اب عوام 2024 میں پوچھتی ہے کس بات کا آپریشن کررہے ہیں، مدارس دینی علوم اور تہذیب کے محافظ ہیں، مغرب کو مذہبی ماحول اور قوتیں قابل قبول نہیں، ریاستی ادارے، ذمہ دار ریاست کا کردار ادا نہیں کر رہے، یہ ادارے کس کا کردار ادا کر رہے ہیں سمجھ نہیں آرہی۔
ان کا کہنا تھا کہ 5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے خلاف ملک گیر یوم سیاہ منایا جائےگا، 10 اگست کو مردان میں کسان کنونشن منعقد ہوگا، 11 اگست کو پشاور میں تاجر کنونشن ہوگا، 18 اگست کو لکی مروت میں امن کنونشن ہوگا، تمام عوامی اجتماعات میں خود شریک ہوں گا۔
انھوں نے کہا کہ یہ اجتماعات پارٹی وابستگی سے بالا عوامی ترجمان ہوں گے، پاکستان کے عوام 2001ء سے 2024ء تک امن کو ترستے ہیں، معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام لازمی ہے، ملک اب مزید کسی ایڈونچر یا مارشل لاء کا متحمل نہیں ہوسکے گا۔