امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر بائیڈن نے اب انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ سابق صدر براک اوباما، نینسی پیلوسی اور دیگر قائدین کی طرف سے انتخابی دوڑ میں ٹرمپ کے مقابل جیتنے کی اہلیت پر شکوک و شبہات کے باعث صدر بائیڈن پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
جسمانی اور ذہنی صحت کی پیچیدگی کے باعث صدر بائیڈن کا مورال غیر معمولی حد تک گرچکا ہے۔ وہ اب تک یہ کہتے تو آئے ہیں کہ ٹرمپ کو ہرانے کے لیے اُن سے زیادہ قابل امیدوار کوئی نہیں تاہم اب انہیں شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ مزید چار سال کے لیے امریکی صدر کے منصب پر فائز رہنا اور منصب کی ذمہ داریاں نبھانا اُن کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
ایسا لگتا ہے کہ براک اوباما اور نینسی پیلوسی کی طرف سے رائے سامنے آنے کے بعد صدر بائیڈن اپنا ذہن تبدیل کرنے پر مائل ہوئے ہیں۔ پہلے مباحثے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنے کے بعد صدر بائیڈن کے لیے اپنا مورال بلند رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا تھا۔
اب امریکی میڈیا میں یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ شاید اِس اختتامِ ہفتہ صدر بائیڈن کی طرف سے اس حوالے سے بڑی خبر آجائے یعنی وہ امریکی انتخابی دوڑ سے الگ ہونے کا باضابطہ اعلان کردیں۔ یوں بھی انہوں نے نائب صدر کملا ہیرس کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ وہ صدر بننے کی اہل ہیں۔ اس بیان سے لوگوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ صدر بائیڈن اب اس معاملے سے تنگ آچکے ہیں اور ذہن بناچکے ہیں۔
صدر بائیڈن کورونا وائرس کی زد میں آگئے ہیں اور آج کل ڈیلاویئر میں اپنے مکان میں الگ تھلگ دن گزار رہے ہیں تاکہ جلد از جلد صحت یاب ہوسکیں۔ وہ کسی سے ملاقات بھی نہیں کر رہے اور ٹیلی فون پر گفتگو کے معاملے میں بھی بہت محتاط ہیں۔
انتخابی دوڑ سے امریکی صدر کے الگ ہونے کے بارے میں خبریں نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی ہیں۔ تمام باتیں ڈیموکریٹ ذرائع کے حوالے سے کی جارہی ہیں۔ کئی ڈیموکریٹ سینیٹرز اور گورنرز نے صدر بائیڈن سے براہِ راست، کھل کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ اب وہ انتخابی دوڑ سے الگ ہوجائیں۔