معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے پاکستان سے متعلق اپنی رپورٹ میں معاشی اور سیاسی نوعیت کی پیش گوئی کی جس میں قابل ذکر ’حکومت 18 ماہ تک برقرا ر ہے گی‘، ’حکومت تبدیل ہوئی تو انتخابات نہیں ہونگے‘ اور ’ٹیکنوکریٹ آئیں گے‘۔ فچ کی پیش گوئی کے بعد مختلف حلقوں میں یہ موضوع زیر بحث ہے کہ آخر فچ یا اسی جیسے دوسرے معاشی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے اپنی رپورٹ مرتب کرتے ہوئے سیاسی نوعت کے اعمال کو بھی زیر غور لا سکتا ہے۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کئی معاشی ماہرین سے اس امر پر تفصیلی گفتگو کی۔ اس حوالے سے عارف حبیب لمیٹڈ میں ہیڈ آف ریسرچ اور معاشی امور کی تجزیہ کار ثنا توفیق بتایا کہ فچ جیسے معاشی درجہ بندی کرنے والے ’سیاسی‘ پہلو کا مد نظر رکھتے ہیں اور سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہیں۔
ثنا توفیق کے مطابق ’اسٹیٹ بینک حکام سے لے کر دیگر اداروں سے ملتے ہیں اور حکام سے بات کرتے ہیں۔ معیشت پر رپورٹس اور اعدادوشمار لیے جاتے ہیں۔ وہ حکام سے معلومات حاصل کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنا تجزیہ کرتے ہیں۔‘ ان کے مطابق رپورٹ مرتب کرنے سے قبل شائع ہونے والی خبروں کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔
معاشی درجہ بندی کرنے والے اداروں کے بارے میں ایک معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن نے بتایا کہ سرکاری ملاقاتوں اور اعدادوشمار کے علاوہ درجہ بندی کرنے کے لیے ان اداروں کے اپنے ذرائع بھی ہوتے ہیں۔ فوج کی حمایت میں قائم ہونے والے ٹیکنوکریٹ انتظامیہ سے متعلق تبصرے پر ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ فچ نے اپنے ذرائع سے یہ بات یا تجزیہ پیش کیا ہوگا۔
حکومت تبدیل ہوئی تو انتخابات نہیں ہونگے، ٹیکنوکریٹ آئیں گے، عالمی ریٹنگ ایجنسی
اس حوالے سے سابق ترجمان اور ماہر معاشی امور ڈاکٹر نجیب خاقان نے ایک اعتراض اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی وزارت خزانہ کو یہ وضاحت دینی چاہیے کہ فچ کی ٹیم اس نتیجے پر کیسے پہنچی۔‘ ان کے مطابق ایک درجہ بندی کے ادارے کی طرف سے ’کسی ملک کے اندرونی حالات پر اس طرح کا تبصرہ مناسب نہیں ہے۔‘
سابق وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے ٹیکنوکریٹ انتظامیہ سے متعلق تبصرے پر کہا کہ ’یہ سیاسی تبصرہ یا تجزیہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک معیشیت سے جڑی حقیقت ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔‘
علاوہ ازیں معاشی امور کے ماہر ارسلان آصف سومرو بھی ثنا توفیق کے مؤقف کی تائید کی اور کہا کہ درجہ بندی میں سیاسی تبصرے، تجزیہ اور پیش گوئیاں ضرور ہوتی ہیں جس میں بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔
مشکل معاشی اصلاحات کو مسلسل نافذ کرنے کا مضبوط انتخابی مینڈیٹ نہ ہونا خطرات پیدا کرسکتا ہے، موڈیز
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور پھر ملک میں ایک نگران حکومت کا دور آیا تو اس وقت پاکستان کی ان عالمی اداروں کی نظر میں سیاسی درجہ بندی بہت خراب تھی مگر پھر جب انتخابات ہو گئے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تو درجہ بندی میں بہتری دیکھنے میں آئی۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے غیر یقینی سیاسی حالات کی وجہ سے ماضی میں ڈیفالٹ تک کی پیش گوئیاں کی جا چکی ہیں مگر پھر ان اداروں نے ہی تسلیم کیا کہ وہ پیش گوئیاں درست ثابت نہیں ہوئیں۔‘