اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی جیل ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈالنے پر اڈیالہ جیل حکام کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کرنے کا عندیہ دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی وکلاء سے ملاقاتوں کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے سابق وزیراعظم عمران خان کی جیل ملاقاتوں کی فہرست جمع کروا دی۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے عدالت سے کہا کہ ہمیں یہ فہرست دیکھنے دیں کہیں جیل سماعتوں کی ملاقاتوں کو تو اس میں شامل نہیں کر دیا گیا، ہمارے دونوں اپوزیشن لیڈرز سمیت رہنماؤں کو 4 گھنٹے کھڑا رکھ کر ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ عدالت نے ہفتے میں 2 بار ملاقاتوں کا ایس او پی بنانے کا حکم دیا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی مقدمات میں نمائندگی کرنے والے وکلاء آتے ہی نہیں، سیاسی طور پر متحرک وکلا عمران خان سے ملاقات کے لیے آتے ہیں جبکہ اڈیالہ جیل جانے والے افراد کا مطالبہ تھا کہ سب کی ایک ساتھ ملاقات کرائی جائے۔
9 مئی مقدمات: عدالت نے عمران خان کی ضمانتوں پر رجسٹرار آفس کا اعتراض ختم کردیا
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ عمران خان پر 200 سے زائد مقدمات درج ہیں، یہ سب سیاسی نتائج والے ہی کیسز ہیں، آپ یہ دکھانا چاہ رہے ہیں کہ یہ سب حقیقی کیسز ہیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے مزید کہا کہ مرکزی وکلاء ملاقات کر کے ہدایات عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلاء کو دیتے ہوں گے، جس پر ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری گاڑیاں جیل سے ڈیڑھ کلو میٹر پیچھے کھڑی کروا دی جاتی ہیں۔
وکیل نے کہا کہ عمران خان اور ملاقات کرنے والوں کے درمیان بڑا شیشہ لگا دیا گیا ہے، کوئی دستاویز لے دے نہیں سکتے، اونچا بولنا پڑتا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ یہ بالکل بھی قابلِ قبول نہیں ہے، کوئی دستاویز دیکھنے سے نہیں روک سکتے، آئندہ ایسا کیا گیا تو میں توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کروں گا، یہ انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے مزید کہا کہ عمران خان سے ملاقات کرنے والے بھی جیل حکام کی ایس او پیز پر عملدرآمد کریں۔
ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ ہم کاغذ کا ٹکڑا لے جا سکتے ہیں نہ باہر لا سکتے ہیں، جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ یہ قابلِ قبول نہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہم پھر بھی ان کو موقع دیتے ہیں، جس پر جسٹس سردار اعجاز اسحaق خان نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ یہ آپ کوئی احسان نہیں کر رہے، میں سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ اس سب سے کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کر دی۔