بنگلہ دیش میں طلبہ کی احتجاجی تحریک نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ پُرتشدد واقعات میں 7 طلبہ کی ہلاکت پر حکومت نے تمام کالجوں اور جامعات کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پڑھنے والے پاکستانی طلبہ کے لیے بھی صورتِ حال نازک ہوگئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطبق حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں 1971 میں پاکستان کے خلاف اور بنگلہ دیش کے قیام کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے دوران مارے جانے والوں کی اولاد کے لیے 30 فیصد کوٹہ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک بھر کے طلبہ اس کوٹے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور بنگلہ دیش میں موجود پاکستانی طلبہ بالخصوص ڈھاکہ یونیورسٹی کے کیمپس میں مقیم پاکستانی طلبہ کا خاص خیال رکھنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے ہائی کمشنر کو ہدایت کی کہ پاکستانی طلبہ کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مقامی حکام سے رابطے میں رہیں۔
ہائی کمشنرسید معروف نے پاکستانی طلبہ کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں بتایا۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے بنگلہ دیش میں پاکستانی طلبہ کومشورہ دیا ہے کہ وہ احتجاج میں شریک نہ ہوں اور کیمپس میں اپنے کمروں سے باہر نہ نکلیں۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی نسل بے روزگاری کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے معاملے میں کرپشن بھی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں فریڈم فائٹرز کی اولاد کے لیے 30 فیصد کوٹہ مختص کرنے سے لاکھوں اہل نوجوانوں کی حق تلفی ہوگی۔
اس وقت بنگلہ دیش میں بے روزگاری نقطہ عروج پر ہے۔ ملک بھر میں کم و بیش 3 کروڑ 20 لاکھ نوجوان کسی نہ کسی شکل میں بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی 17 کروڑ بتائی جاتی ہے۔
طلبہ کے احتجاج نے اس وقت سنگین شکل اختیار کی جب وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد نے احتجاج کرنے والے طلبہ کے قائدین سے ملاقات کرنے اور اُن کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ معاملہ اس وقت زیادہ بگڑا جب انہوں نے احتجاج کرنے والے طلبہ کو ’رضاکار‘ کہا۔ یہ اصطلاح 1971 میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے بنگالیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اپنے حقوق کے لیے احتجاج اور جدوجہد کرنے والے طلبہ کو اپنے بارے میں اصطلاح کے استعمال سے بہت بُرا لگا اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اُن سے بات کی جائے، معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جائے اور طلبہ کی جدوجہد کو کسی بھی طرح کا کوئی اور رنگ دینے کی کوشش نہ کی جائے۔
اس ہفتے ملک بھر میں فریڈم فائٹر کوٹے کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کا کئی مقامات پر حکمراں عوامی لیگ کے اسٹوڈنٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے طلبہ سے ہوا جس میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔
منگل کو تصادم کے دوران ایک طالب علم سمیت کم از کم 6 افراد ہلاک ہوئے۔ بنگلہ دیشی طلبہ کی تحریک میں عالمی برادری کی دلچسپی بھی بڑھ گئی ہے۔ ایمنیسٹی انٹرنیشل نے ایک بیان میں بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پُرامن احتجاج کرنے والے طلبہ کی سیکیورٹی یقینی بنانے پر توجہ دے اور زخمی ہونے والوں کے علاج کا اہتمام کرے۔
بنگلہ دیش کے کئی شہروں کی جامعات میں بلوائیوں پر قابو پانے والے پولیس دستوں کے ساتھ ساتھ بارڈر گارڈ بنگلہ دیش نامی نیم فوجی دستے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔