حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی کے فیصلے پر سابق اٹارنی جنرل جسٹس (ر) انور منصور کا کہنا ہے کہ اس کیس میں آرٹیکل 17 کا اطلاق ہوتا ہے اور اس میں دیکھا جاتا ہے کہ کس طریقے سے اور کیوں پارٹی کو بین کیا جائے۔
آج نیوز کے پروگرام ”نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاء“ میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس (ر) انور منصور نے کہا کہ 1976 میں عبدالولی خان کے خلاف ایک کیس ہوا، اس کیس کے بعد پارٹی پر پابندی لگادی گئی تھی، اس پابندی کے پیچھے ایک وجہ تھی، انہوں نے ایک عوامی تقریر کی تھی اور دھمکی دی تھی کہ ہم پاکستان سے الگ ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت الیکشن کمیشن کے اس حکم پر تکیہ کر رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فارن فنڈنگ ہوئی ہے، جو کہ بالکل غلط آرڈر تھا اور اس پر ایف آئی اے نے 200 سے 250 لوگوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ یہ الیکشن کمیشن کے حکم کو ثبوت بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانا اتنا آسان نہیں ہے، اس پر طویل قانونی جنگ ہوگی، آپ اس کو بنا ثبوت کے آگے نہیں لے جاسکتے، ایف آئی اے چار سال میں آج تک ایک ثبوت بھی فارن فنڈنگ پر اکٹھا نہیں کر پائی ہے۔
اسی حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج شاہ خاور نے کہا کہ جیسے ہی کابینہ پابندی کا نوٹفکیشن جاری کرے گی پی ٹی آئی ”بین“ سمجھی جائے گی، اس کے 15 دن کے اندر حکومت کو سپریم کورٹ جانا ہوگا۔ نوٹفکیشن تب تک برقرار رہے گا جب تک سپریم کورٹ اسے ختم نہیں کرتی، اس پر اسٹے بھی نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ہوتا پی ٹی آئی بین رہے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما علی بدر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے آئین شکنی کی ان پر آرٹیکل پانچ اور چھ لگتا ہے، وزیراعظم نے عدم اعتماد کے ووٹ کے دوران اسمبلی توڑ دی، اور اس کی ایڈوائس صدر کو بھیجی جس پر صدر نے اسمبلی تحلیل کردی، اس پر آرٹیکل 5 اور 6 لگنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک پیپلز پارٹی سے حکومت نے اس حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی ہے، ہماری قیادت کسی جماعت پر پابندی کے حق میں نہیں۔
ان ک کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا کر مسائل حل کرنے چاہئیں، میں نہیں سمجھتا کہ کوئی سیاسی لیڈر پابندی کو سپورٹ کرے گا۔