کیا پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت کے سولر منصوبے عام صارفین کو کوئی ریلیف فراہم کرسکیں گے؟ پاکستان میں سولر انرجی کا غلغلہ ہے۔ لوگ بہت تیزی سے توانائی کے حصول کے اس متبادل ذریعے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ ملک بھر میں سولر پینلز کی خریداری بڑھ رہی ہے۔ اسی کے ساتھ بیٹریوں کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت نے سولر پینلز کے ذریعے بجلی پیدا کرنے میں دلچسپی رکھنے والے شہریوں کے لیے خصوصی منصوبے شروع کیے ہیں۔ خیبرپختونخوا حکومت ’روشن گھرانہ‘ اسکیم کے ساتھ میدان میں آئی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک تجزیے میں کہا گیا کہ پاکستان بھر میں لوگ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سولر انرجی کے حوالے سے سامنے آنے والے حکومتی منصوبے خوش آئند ہیں اور عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں کسی حد تک تو ریلیف دیا جارہا ہے۔
پنجاب میں سولر پینلز ان لوگوں کو دیے جائیں گے جو ماہانہ 50 سے 500 یونٹ بجلی خرچ کرتے ہیں۔ سرکاری اسکیم کے تحت دیے جانے والے سولر سسٹمز کی 90 فیصد لاگت حکومت ادا کرے گی۔ سولر پینلز کی اقساط پانچ سال پر محیط ہوں گی۔ پہلے مرحلے میں غریب ترین گھرانے سولر پینل حاصل کریں گے۔ اس اسکیم سے ایک لاکھ گھرانوں کو کور کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا میں 200 اور 300 یونٹ بجلی خرچ کرنے والوں کے لیے سولر سسٹم لائے جارہے ہیں۔ وہاں بھی ابتدا میں ایک لاکھ گھروں کو سولر سسٹم دیا جائے گا۔ غریب گھرانوں کو سولر انرجی سے چلنے والے پنکھے اور بیٹریاں بھی فراہم کی جائیں گی۔
سولر سسٹم خریدنے کی استطاعت رکھنے والے گھرانوں کے لیے آدھی رقم صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ جو لوگ سولر خریدنے کی استطاعت کے حامل ہیں تاہم اُن کے پاس نقدی نہیں انہیں بھی اقساط پر سولر سسٹم دیے جائیں گے۔
پنجاب میں سولر پاور کا پائلٹ پروگرام کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے۔ مجموعی لاگت کا پتا اُس وقت چلے گا جب یہ معلوم ہوسکے گا کہ کتنے لوگ اِن منصوبوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔
مارکیٹ میں ایک کلو واٹ کے سولر سسٹم کی قیمت تین سے ساڑھے تین لاکھ تک ہے جبکہ دو کلو واٹ کے سولر سسٹم کی لاگت چار سے ساڑھے چار لاکھ روپ ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ سولر سسٹم یں لیتھیم کی بیٹری بھی استعمال ہوتی ہے جو دس سال تک بھی کارآمد رہتی ہے۔
حکومت کی دلچسپی کی بدولت ان منصوبوں میں نجی اداروں کی دلچسپی بڑھ گئی ہے اور مسابقت کے نتیجے میں لاگت کم ہوتی جارہی ہے۔ ؛’
ماہرین کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کے لیے اس منصوبے کو کامیابی سے ہم کنار کرنا مشکل ثابت ہوگا۔ ملک بھر میں ’پروٹیکٹیڈ‘ گھرانے ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد ہیں جن میں سے صرف ایک کروڑ گھرانے پنجاب میں ہیں۔ ہر گھرانے کو سسٹم فراہم کرنے پر 100 ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوں گے۔ اتنے مالیاتی وسائل کی فراہمی بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔
تکنیکی ماہر عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت 20 فیصد کی حد تک ڈاؤن پے منٹ کرے اور باقی رقم صارفین اقساط میں ادا کرتے رہیں۔ حکومت کی طرف سے 90 فیصد تک ادائیگی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
ماہرِ معاشیات شاہد محمود کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے لیے بھی اپنے منصوبے پر عمل مکمل طور پر ممکن نہیں۔ کے پی میں لوگ سولر سسٹم سے بہت حد تک ناواقف ہیں۔ انہیں سبسڈی درکار ہے۔ ایسے منصوبے بیورو کریسی چلاتی ہے۔ اس حوالے سے بھی پیچیدگیاں اور مسائل ہوسکتے ہیں۔
اب تک تو یہی ہوتا آیا ہے کہ ایسے منصوبوں کے نتیجے میں قومی وسائل کا ضیاع ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی بالائے فہم ہے کہ حکومت یہ کام بیورو کریسی کے حوالے کیوں کر رہی ہے۔ اس وقت بازار میں کئی سپلائر ہیں جن کے درمیان مسابقت ہے اور لوگوں کو سولر سسٹم کم قیمت میں مل رہے ہیں۔ بیورو کریسی بھی کسی ایک سپلائر کو منتخب کرے گی اور مسابقت میں فرق پڑے گا۔ اور پھر مالی وسائل کا بھی معاملہ ہے۔
شاہد محمود کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ گھرانوں میں سولر سسٹم نصب کرنے سے بھی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا، ایل این جی اور ہائیڈرو پاور کی بھی ضرورت باقی رہے گی۔ وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے درمیان جو کچھ چل رہا ہے اُس سے بھی سب واقف ہیں۔ ایسے کسی بھی منصوبے سے لوگوں کو بہت کم فائدہ پہنچے گا اور معاشی سرگرمیوں پر اس کے مثبت اثرات کم ہی مرتب ہوں گے۔