پشاور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ افغان باشندوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین دُہری شہریت کی حقدار ہیں۔ اگر وہ افغان سٹیزن کارڈ یا پروف آف رجسٹریشن کے عمل سے گزر رہی ہوں تب بھی پاکستانی شہریت پر اُن کا حق برقرار رہتا ہے۔
ایک انگریزی اخبار کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی والدین کے ایسے بچے جو 21 سال سے کم عمر ہیں، 21 سال کے ہونے تک افغانستان اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھ سکتے ہیں۔
جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس وقار احمد پر مشتمل بینچ نے یہ تاریخی رولنگ افغان اور پاکستانی باشندوں کی طرف سے دائر کی گئی 65 درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے دی۔ فاضل عدالت نے اے سی سی اور پی اور آر کے ریکارڈز میں نام ہونے کی بنیاد پر پاکستانی خواتین کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا عمل بھی غیر قانونی قرار دیا ہے۔ اِسی طور 21 سال سے کم عمر والوں کے لیے ب فارم دینے سے انکار کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
جسٹس وقار احمد نے 62 صفحات کا جو فیصلہ لکھا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ بالا وجوہ کی بنیاد پر شناختی کارڈ بلاک کرنا سٹیزن شپ ایکٹ کے سیکشنز 14، 14A اور 16 کی خلاف ورزی ہے۔ بینچ کی رولنگ کے مطابق جن درخواست دہندگان کی بیوی یا شوہر افغان ہو وہ پاکستانی اوریجن کے کارڈ کے حقدار ہیں۔ ایسے لوگ نیچرلائزیشن کے طریق سے پاکستان کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
جن پاکستانی شہریوں کو اے سی سی یا پی او آر کارڈز جاری کیے گئے ہیں اور جن کا تعلق دیگر درجہ بندیوں سے تعلق نہیں رکھتے وہ سٹیزن شپ ایکٹ کے سیکشن 19 کے تحت کلیئرنس سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
درخواست گزاروں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں پیدائش کی بنیاد پر پاکستانی شہریت درکار ہے اور وہ لوگ بھی جنہیں نے اے سی سی یا پی او آر کارڈ بنوایا ہے یا افغان شہری سے شادی کر رکھی ہے اور اُن کی اولاد بھی ہے۔
درخواست دہندگان کے وکلا سیف اللہ محب کاکاخیل اور نعمان محب کاکاخیل نے استدلال کیا کہ ان کے موکلین کی درخواستوں کا تعلق سٹیزن شپ ایکٹ مجریہ 1951 کے تحت پیدائش کی بنیاد پر شہریت سے متعلق تھیں۔
وکلا کا کہنا تھا کہ بہت سے پاکستانی شہریوں نے محض غربت کے باعث ریلیف فنڈ یا خوراک کے حصول کے لیے افغان سٹیزن کارڈ یا پی او آر کارڈ بنوائے ہیں اور اب وہ اِن کارڈز کو منسوخ نہیں کرا پارہے۔ ان کا یہ بھی استدلال تھا کہ پاکستان قانون کے مطابق کسی غیر ملکی سے شادی کرنے والی پاکستانی خاتون اپنے ملک کی اور شوہر کے ملک کی شہریت ساتھ ساتھ رکھ سکتی ہے۔
اپنے فیصلے میں عدالت نے سٹیزن شپ ایکٹ، نادرا آرڈیننس اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اُن پر بحث کی ہے۔ کیسز کو چار درجوں میں رکھا گیا۔ ان میں پاکستان اور افغان والدین کے بچے بھی شامل ہیں جن کے نام اے سی سی اور پی یا پی او آر کارڈ جاری کیے گئے ہوں۔ دوسرے نمبر پر وہ پاکستانی ہیں جو اے سی سی کارڈ رکھتے ہیں مگر پاکستانی شہریت کے دعویدار ہیں۔ تیسرے نمبر پر وہ افغان باشندے ہیں جن کی شادی پاکستانی شہری سے ہوئی ہو اور چوتھے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو پاکستانی ہیں مگر غلطی سے افغان شہری قرار دے دیے گئے۔